Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

نیل کھیت
نیل کھیت
نیل کھیت
Ebook816 pages8 hours

نیل کھیت

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

نیل کھیت - کیپٹن(ریٹائرڈ ) بشیر احمد خان عباسی کی پہلی کاوش ہے- ایک نوآموز لکھاری کے اس ناول کا  ناں تو سیاست سے کوئی تعلق ہے اور ناں کوئی سچائی یا برائی کو منظر عام پر لانے کی  کوئی کوشش ہے _ یہ کتاب اردو ادب میں ایک معمولی سا اضافہ ہو گا _ ناں ہی مصنف کا اس ناول سے کوئی مالی فائدہ اٹھانے کا مقصد ہے- مصنف اس ناول کے شائع ہونے کے بعد ایک سفر نامہ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو تھائ لینڈ اور ملائشیا کے ایک دلچسپ سفر کے بارے میں ایک معلوماتی تحریر ہے _

 

LanguageUrdu
PublisherAbdul Abbasi
Release dateJul 29, 2023
ISBN9798223784104
نیل کھیت

Related to نیل کھیت

Related ebooks

Reviews for نیل کھیت

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    نیل کھیت - Bashir Ahmed Khan Abbasi

    انتساب

    اپنے  پیارے بچوں

    ملیحہ اشفاق

    راویہ جلال

    صحیفہ عمران

    محمد احمد اظفرعباسی۔عاصمہ احمداظفر

    اور

    محمد فیضان مکرم کے نام۔

    نیل کھیت۔ایک تعارف

    ادب کو تنقید حیات کہیں یا عکس حیات،وہ حیات سے الگ نہیں ہو سکتا۔عمرانی مفکرین کا کہنا ہے کہ کسی زبان کے ایک لفظ یاایک تخلیقی جملے میں تخلیق کار کی زبان بولنے والی تہذیب اور معاشرت کی تمام خصوصیات، اس پر بیتنے والے تمام واقعات سمٹ آتے ہیں۔اور جب تخلیق کار جملے پہ جملے صفحے پر صفحے تخلیق کرتا جا رہا ہو تو زندگی کو نظر انداز کرنا محال ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زندگی کوئی جامد شے نہیں بلکہ مسلسل حرکت پذیر ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی ایک معمل ہے جس پر وقت اپنے تجربے کرتا ہے۔زندگی جب حرکت کرتی ہے تو اس پر عمل کرنے والی قوتیں باہم متصادم ہوتی ہیں۔اس تصادم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔کبھی تو باہم متصادم قوتوں میں سے ایک قوت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ کسی حقیقی بڑے تصادم کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔اس کے بر عکس جب یہ قوتیں برابر کی طاقت کے ساتھ ٹکراتی ہیں تو زوردار دھماکا ہوتا ہے۔فضا دهند لا جاتی ہے ۔ کچھ نظر نہیں آتا۔یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کون ظالم کون ہے اور مظلوم کون۔خیر کس طرف ہے اورشر کی حمایت کسے حاصل ہے۔فتح کس کو حاصل ہوئی اور شکست کا سامنا کسے کرنا پڑا۔اس تصادم کا شکار انسان ہوتے ہیں۔انسانوں کی بستیاں جلتی ہیں۔ انسانوں کے گھر راکھ کے ڈھیر میں بدلتے ہیں۔بچوں، بڑوں اوربوڑھوں کا خون بہتا ہے۔ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کی عزتیں لٹتی ہیں۔وقت کے اس سلوک کے سامنے تمام لمحے ایک جیسے ہوتے ہیں۔۱۸۵۷ ہو،۱۹۴۷ ہو یا ۱۹۷۱۔

    ادیب زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے ان حادثات سے دوہری سطح پر متاثر ہوتا ہے۔ایک تو اس لیے کہ وہ اس معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے۔دوسرے اس کا ماڈل وہی زندگی ہوتی ہے جو حادثے کا شکار ہو رہی ہوتی ہے۔دوسرے الفاظ میں تخلیق کار وہ نقطہ ارتکا ز ہوتا ہے جہاں ان حادثات کے اثرات مرتکز ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں دوام حاصل کرنے والے ادب پارے وہی ہوتے ہیں جن کا موضوع کوئی بڑا حادثہ،جنگ یا انقلاب ہوتا ہے۔پاکستان کے عوام ابھی ۱۹۴۷ کے زخموں کو بھولنے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ چوبیس سال سے بھی کم عرصے میں انھیں سقوط ڈھاکہ جیسے المیہ سے دوچار ہونا پڑا۔ہمارے ادیبوں نے ۱۹۴۷ کے فسادات کی طرح ۱۹۷۱ کی ہولناکیوں کو بھی موضوع بنایا لیکن اس پر حیرت ضرور ہوتی ہے کہ جتنا بڑا ادب ۱۹۴۷ کی ہولناکیوں کے موضوع پر تخلیق ہوا، اس کا عشر عشیر بھی سقوط ڈھاکہ کے موضوع پر تخلیق ناں ہوا۔۱۹۴۷ کے دکھ کے پس منظر میں آزادی جیسی نعمت کا تحفہ موجود تھا۔اس کے مقابلے میں سانحہ سقوط ڈھاکہ دکھ ہی دکھ تھا۔اس پورے واقعے میں خیر کاکوئی ہلکا سا اشارہ بھی موجود نہیں تھا۔ادب اپنی اصل میں زندگی کے المناک پہلو ؤں کو موضوع بناتا ہے۔اس حقیقت کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ادبی سطح پرسانحہٗ ڈھاکہ کو وہ توجہ نہیں ملی جیسی کہ ملنی چاہیے تھی۔اس گریز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔بادی النظر میں اس گریز کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔

    اول یہ کہ ادیب کا احساس مظلومیت اسے لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ ۱۹۷۱ میں ہم مظلوم نہیں تھے بلکہ مشرقی پاکستان کے باشندوں کی نظر میں ہم ظالم تھے۔دوم یہ کہ بھارت کے ساتھ اس جنگ میں ہماری شکست اور بطور خاص ہمارے ہتھیار ڈالنے کے واقعہ نے ہمارے اندر احساس ندامت پیدا کر دیاجو ادبی تخلیق کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے لکھنے والوں نے اس سانحے کو یکسر نظر انداز کر دیا۔مختلف اصناف سخن میں بہت سی تخلیقات سامنے تو آئیں، مگر پھر خاموشی چھا گئی۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے نصف صدی بعد کیپٹن (ر)بشیر عباسی نے کے ناول ْنیل کھیتـــــــــــ ــــ ْ نے اس تاثر کو بڑی حد تک رد کر دیا ہے کہ ہم اس المیے کو بھول گئے ہیں۔

    نیل کھیت جنوبی پنجاب کے علاقے کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ متوسط درجے کے جاگیر دار کے مہم جو بیٹے عاویز کی کہانی ہے جو انیس سال کی عمر میں مشرقی پاکستان کی کشش میں بی اے آنرز کرنے کے لیے ڈھاکہ پہنچ جاتا ہے۔وہاں پہلے دن ہی اس کی ملاقات ڈھاکہ کی ایک معروف کاروباری شخصیت کی بیٹی سلینا چودھری سے ہو جاتی ہے۔سلینا کی سفارش سے ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ ملتا ہے۔یہ تعلق رفتہ رفتہ الفت میں بدل جاتا ہے۔انھیں دنوں (۱۹۶۸) میں مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان سے نفرت اور علیحدگی کی تحریک زور پکڑ رہی ہوتی ہے۔ڈھاکہ یونیورسٹی آئے روز بند رہتی ہے۔۱۹۷۰ کے اواخر میں عاویز پاکستان آرمی میں کمیشن لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔کاکول اکیڈمی میں تربیت کے اختتام پرعاویز ان حالات میں مشرقی پاکستان میں خدمات سر انجام دینے کا آپشن دیتا ہے جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے۔ ۲ دسمبر کو دوران جنگ عاویز اپنی بٹالین کو میدان جنگ میں جوائن کرتا ہے۔ بٹالین جوائن کرنے سے قبل عاویز کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس شدید بد امنی کے دور میں سلینا چودھری کو اسلحہ کے زور پر نامعلوم افراد اغوا کرچکے ہوتے ہیں۔ ۱۵ دسمبر کی شام دشمن کے حملے کا دفاع کرتے ہوئے شدید زخمی ہو جاتا ہے۔عاویز اور اس کے ساتھ شدید زخمی ہونے والے سپاہیوں کو بطور جنگی قیدی انتہائی اذیت ناک انداز میں کلکتہ کے بیس ہاسپیٹل پہنچا دیا جاتا ہے جبکہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو سقوط ڈھاکہ ہو جاتا ہے۔یہی ناول کا نقطہء عروج ہے۔ فنی نقطہء نظر سے ْ نیل کھیت ْ ایک معیاری ناول ہے جس کے تشکیلی عناصر یعنی پلاٹ،کردار،نقطہء نظر ، مشاہدہ ، مطالعہ اور منظر کشی اپنی اپنی جگہ پر کامیاب ہیں۔سب سے اہم تشکیلی عنصر ، پلاٹ پر ناول نگار کی مکمل گرفت ہے۔کہانی ناول کے مرکزی کرداروں ، عاویز اور سلینا کے گرد گھومتی ہے اور مرکزی کردار ایک لمحے کے لیے بھی قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتے۔ کہانی کا کینوس اگرچہ وسیع ہے مگر ناول نگار نے کمال مہارت سے اسے پھیلنے سے محفوظ رکھا ہے۔ہر واقعہ دوسرے واقعے سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ کسی ایک واقعے کو بھی ناول سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔بے جا تفصیلات اور غیر ضروری بیانات سے مکمل گریز ملتا ہے۔یوں لگتا ہے جیسے ناول کی کہانی کسی طویل کہانی کا خلاصہ ہے جس کا مزید خلاصہ کرنا ناممکن ہے۔ناول کے تمام اہم کردار بھی منطقی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔بیس ہسپتال کلکتہ سے فرار ہو کر سلینا کی بازیابی کے لیے عاویز کو ایسے کرداروں کی ضرورت تھی جن پر عاویز کو مکمل اعتماد ہو۔جو اس کے اپنے ہوں۔ ایسے کرداروں کی تشکیل ناول کے آغاز میں ہی کر دی جاتی ہے ۔ وہ کردار بھی اتنے دلچسپ ہیں کہ اگر انھیں ْ نیل کھیت ْ میں ناں سمویا جاتا تو ان پر ایک اور ناول لکھا جا سکتا تھا۔ ْنیل کھیت ْ کا ایک اہم پہلو اس وقت کے مشرقی پاکستان کا سیاسی منظر نامہ اور اس منظر نامے سے حوالے سے ناول نگار کا نقطہء نظر ہے۔ اکثر ناول نگار اس موقع پر منظر کشی کی لذت کشی میں ڈوب کر دور نکل جاتے ہیں اور بیسیوں صفحات پر انھیں مناظر کو پھیلا دیتے ہیں۔بشیر عباسی نے ایک ماہر فنکار کی طرح تفصیلات میں بہک جانے کی بجائے اشاروں سے کام لیا ہے۔مشرقی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کی طرف ناول کے آغاز میں ہی ہلکے ہلکے اشارے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ واضح ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔ان اشاروں کو جوڑا جائے تو مشرقی پاکستان کا پورا منظر نامہ سامنے آ جاتا ہے۔ڈؑھاکہ یونیورسٹی کے ہاسٹل ْ جگن ناتھ ہال ْ میں عاویز کے ساتھ کیا جانے والا سلوک اس سیاسی منظر نامے کا کلائمکس ہے۔ کسی المیے پر وہ شخص لکھ سکتا ہے جو اس سانحہ سے گذرا ہو۔سانحہ سقوط ڈھاکہ کی آگ کو یا تو بنگالیوں نے محسوس کیا یا بہاریوں نے اور ویسے ہی پاکستان کی افواج نے محسوس کی جو اس آگ میں جل رہے تھے۔ وہ بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے سے تین گنا زیادہ طاقتور دشمن سےلڑ رہے تھے جس دشمن کے جنگی طیاروں کو مشرقی پاکستان کی فضاؤں پر مکمل حکمرانی حاصل تھی۔مغربی پاکستان کی عام سول آبادی کی روح تو اس آگ سے متاثر ہوئی لیکن جسم محفوظ رہے کہ یہ آگ ایک ہزار میل دور لگی ہوئی تھی۔

    ْ نیل کھیت ْ کے مصنف کو مشرقی پاکستان کے معاشرے کی تمام حرکیات پر گہری نظر ہے۔انڈیا (بہار) سے جانے والے مہاجر مقامی بنگالیوں میں جذب نہ ہو سکے۔مقامی بنگالیوں اور بہار سے ہجرت کر کے آنے والوں میں ناپسندیدگی کا تناؤ بڑھتا رہا اور اور اس آفاقی سچ کو ناول نگار نے خوبصورتی سے پیش کرنے کے بعد لکھا ہے کہ

    ْآخر ایک دن بنگالیوں کے دل میں بہاریوں کے خلاف نفرت کی سلگتی ہوئی چنگاری موقع پاتے ہی خو فناک شعلوں میں بھڑک اٹھی اور بہاری لٹ گئے۔صرف مسلمان ہو نا بہاریوں کے کام نہ آسکا۔

    ۱۹۴۷ کے فسادات اور ہجرت کے پس منظر میں عصمت چغتائی کے لکھے گئے افسانے ْ جڑیں ْ اور ْ نیل کھیت ْ میں خاصی مماثلت نظرآتی ہے۔ ْ جڑیں ْ میں جب ایک مسلمان گھرانے کے تمام افراد روانہ ہونے لگتے ہیں تو عین وقت پر طویل خاموشی کے بعد بڑھیا کی زبان پہلی مرتبہ کھلتی ہے۔ْمیرے ٹرنک کو ہاتھ مت لگانا۔ْ سب ہکا بکا رہ گئے۔ ْتم لوگ جاؤ۔ اب میں کہاں جاؤں گی۔ میرا آخری وقت۔ْ نیل کھیت میں بھی ایک بہاری ماں اپنا گھر چھوڑنے سے انکار کر دیتی ہے۔بقول ناول نگار:

    ْ ضعیف اور بزرگ عورتوں کو اپنے گھروں سے عشق ہوتا ہے۔اور ان کو اپنے گھروں میں ہی مرنا اچھا لگتا ہے۔وہ شاید سمجھتی ہیں کہ ویسے ہی تھوڑی زندگی باقی رہ گئی ہے تو پردیس جا کر کیا مرنا ۔ ْ

    مغربی پاکستان کی پنجاب یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کا معیار کسی طرح بھی ڈھاکہ یونیورسٹی سے کم نہ تھا مگر بنگال کی ان دیکھی سرزمین کی الفت میں بغیر کسی تعارف، بغیر کسی ریفرنس کے عاویز ڈھاکہ پہنچ جاتا ہے والد کی اس تنبیہ کے باوجود کہ وہاں کے حا لات ٹھیک نہیں ہیں۔بنگال سے عاویز کی محبت کا اظہار اس منظر کشی سے ہوتا ہے جسے وہ بار بار پیش کرتا ہے۔

    ْڈھاکہ میں ایک چھوٹی سی من موہنی سڑک ہے جسے ْ نیل کھیت ْ روڈ کہتے ہیں۔دونوں جانب سے شاید شیر شاہ سوری کے زمانے کے سایہ دار درختوں میں گھری نیل کھیت روڈ دو بڑی سڑکوں کو ملاتی ہے۔سنا ہے ماضی میں یہاں نیل کے پودوں کے کھیت ہوا کرتے تھے تو ان کی یاد میں اب بھی یہ علاقہ نیل کھیت کہلاتا ہے۔گم گشتہ خوبصورت ماضی، خوبصورت درختوں میں گھری،اور خوبصورت نام والی اس تمام کی تمام سڑک کے دونوں جانب ڈھاکہ یونیورسٹی واقع ہے۔

    ناول نگار مزید لکھتا ہے، مشرقی پاکستان بادلوں اور بارشوں کی سرزمین ہے۔انھیں برکھا رتوں نے پورے مشرقی پاکستان کو ایک سبزہ زار بنا دیا ہے۔یہاں مٹی، ریت یا گرد نہیں اڑتی۔آندھی آئے بھی سہی تو وہ بھی صرف پہلے سے گرے ہوئے پتوں، یا بیچارے کمزور پتوں کوتتر بتر کرکے اپنا رانجھا راضی کر کے چلی جاتی ہے۔ریلوے لائن ہو، سڑک کے کنارے ہوں یا خالی زمین کا کوئی ٹکڑا ہو،وہاں ننگی مٹی نظر نہیں آئے گی۔فضا بارش اور سبزے کی سوندھی سوندھی مہک سے معطر رہتی ہے۔

    ناول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ٹریننگ کے دوران ہونے والے دلچسپ واقعات صرف وہی بیان کر سکتا ہے جس نے وہاں پر اپنی ٹریننگ مکمل کی ہو۔ بقول مصنف ، ْ فرسٹ ٹرم والوں پر کہیں بھی آنے جانے کے لیے چلنے پر پابندی ہے۔وہ صرف بھاگتے ہوئے آ جا سکتے ہیں۔اکیڈمی میں آپ کو کہیں بھی کوئی سینیئر نظر آئے تو اپنا پورا گلا پھاڑ کر ْ سلام علیکم سر ْ کہنا ہے۔کھانے کے دوران کانٹے یا چھری کی پلیٹ سے ٹکرانے کی آواز نہیں آنی چاہیے۔چائے یا کافی لیتے وقت منہ سے چسکی کی آواز نہ نکلے۔ کھانے کے آداب کی خلاف ورزی پر کوئی بھی سینیئر آپ کومیز سے اٹھ جانے کا حکم دے سکتا ہے چاہے آپ کو کھانا کھائے بغیر ہی میز کیوں نہ چھوڑنی پڑے ۔ ْ بشیر عباسی نے ایک سچے سپاہی کے طور پر جنگ کے مناظر اس انداز میں پیش کیے ہیں کہ قاری پر تو خوف طاری ہو جاتا ہے لیکن وہ خود اور ان کے ساتھی اس خوف سے متاثر ہوتے نظر نہیں آتے۔لکھتے ہیں ْ مشرقی پاکستان میں ۱۹۷۱ کی جنگ میں لڑنے والی پاکستان آرمی کا سب سے بڑا المیہ یہ تھا کہ سامنے سے تو اس کو اپنے ازلی دشمن کا مقابلہ کرنا ہی تھا لیکن وہ نا پیچھے سے محفوظ تھی نا دائیں سے نا بائیں سے۔پاک فوج کی موجودگی کے علاقوں میں وہاں پانی کے نلکے اکھاڑ دیے یے گئے تھے کنووئں کا پانی زہر آلود کر دیا گیا تھا۔ ْ ناول نگار کی مشرقی پاکستان کی سرزمین کے ساتھ والہانہ محبت کو دیکھیں ناول کی پوری کہانی ،کہانی کا ہر کردار،ہر واقعہ ایک استعارہ ہے۔ اگر عاویز خود مغربی پاکستان کا استعارہ ہے تو سلینا چودھری مشرقی پا کستان کا استعارہ ہے۔اسی طرح سیٹھ مہندرا باسو بھارت کا استعارہ ہے۔سلینا کا اغوا ہونے کے بعد سیٹھ مہندرا باسو کے ہاتھوں میں چلے جانا دراصل مشرقی پاکستان کا اغوا ہے۔سلینا چودھری کہ بازیابی دراصل بنگلہ دیش کی بھارت کے عارضی قبضے سے رہائی ہے۔ عاویز سلینا کی بازیابی کے بعد اس کو اپنے ساتھ مغربی پاکستان نہیں لا سکتا جبکہ حالات کے جبر کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں اپنے اپنے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ناول کی کہانی ۱۹۴۷ کی کہانی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔اس وقت بھی ایک ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا اور ۱۹۷۱ میں بھی ایک ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔اس وقت بھی انسان تقسیم ہوئے اور اب بھی انسان تقسیم ہوئے۔جس طرح حالات اور وقت کے جبر کا تصور قرئت العین کے ناول (آگ کا دریا) کی فضا پر چھایا ہوا ہے ، اسی طرح وقت کے جبر کا شدید احساس ہمیں نیل کھیت کے آخر میں ملتا ہے۔

    ●  ْگو تم ، تم نے اندازہ لگایا ہے کہ و قت بہت خوفناک چیز ہے۔(آگ کا دریا)

    ●  ہم سب نا چاہتے ہوئے بھی ان حالات کے جبر کا شکار ہو چکے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں تھے۔  (نیل کھیت)

    ●  کیا میں اور میری طرح دوسرے ہندوستانی مسلمان ایسے مضحکہ خیز اور قابل رحم کر دار بننے کے مستحق تھے؟ ( آگ کا دریا)

    ●  کل کے ہم وطن آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔کل کے آشنا ایک دوسرے کے لیے سراسر اجنبی۔ ( نیل کھیت )

    ●  وہ منڈیر سے اترا ۔اس نے ایک لمبا سانس لیا اور آہستہ آہستہ قدم رکھتا بستی کی طرف واپس چلا گیا۔ ( آگ کا دریا)

    ●  دونوں ایک دوسرے کو اس وقت تک تکتے رہے جب تک کہ سمندر کے بے کراں فاصلے نے انھیں ایک دوسرے کی دھندلائی نظروں سے اوجھل نہ کر دیا۔ ( نیل کھیت)

    ––––––––

    ڈاکٹر شعیب عتیق خان۔

    ۱۱ جولائی ۲۰۲۲

    نیل کھیت

    دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر کچے کے جنگلات ہیں۔گھنے سرکنڈوں کے یہ جنگل وہاں تک پھیلے ہوئے ہیں جہاں تک کہ ہر سال موسم برسات کی دریائی موجیں پھیل جاتی ہیں۔ یہاں وحشت کا راج ہے۔ یہاں کچے کے سرداروں کا حکم چلتا ہے۔

    یہیں اس داستان کا آغاز ہوتا ہے۔

    پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقے کے ایسے ایک جنگل میں چار کارندے اپنے سردار کے سامنے سر جھکائے با ادب ہاتھ باندھے کھڑے، سردار کی ہدایات پوری توجہ سے سن رہے تھے ۔

    ‘‘میں نے تمام بندوبست اس طرح کر دیاہے کہ جس میں ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ’’۔ سردار نے اپنی مونچھوں کو نخوت سے تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

    ‘‘ چھل جھوک سے دلہن کو بحفاظت لانے کے لیے تم نے میری جانب سے دولہا اور بارات کا محافظ بن کر بارات کے ساتھ جانا ہے۔ اسلحہ چھوٹا ہو گا اور پوشیدہ رکھنا ہے۔ شادی کے بعد واپسی پر بارات ریلوے سٹیشن سے بیل گاڑیوں پر دولہا کے گاؤں کے لیے روانہ ہو گی۔ دولہا اور دلہن کو سب سے زیادہ سجی ہوئی اگلی بیل گاڑی میں بٹھایا جائے گا۔ تم نے سب سے پچھلی بیل گاڑی میں سوار ہونا ہے اور آگے والی بیل گاڑیوں سے پیچھے ذرا فاصلے پر رہنا ہے۔ دولہا دلہن کی سواری جیسے ہی ‘‘ ہسی موڑ’’ پر پہنچے گی تو کالے جھنڈ سے گھڑ سوار نقاب پوش ڈاکو بارات پر حملہ آور ہو ں گے۔ بارات کو کوئی اور نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ فقط ان سے دلہن چھین لی جائے گی۔ یاد رکھو، تْم نے ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے صرف ہوائی فائرنگ کرنی ہے۔کِسی بھی نقاب پوش حملہ آور کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے ۔ تم بخوبی جانتے ہو وہ کون ہوں گے۔البتہ تم میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو خود ہی معمولی زخمی کر لے تو انعام پائے گا۔وہ نرس دلہن کے روپ میں اس شام ہر صورت میں میرے دریائی جزیرے والے ڈیرے پر میرے پاس پہنچنی چاہیے۔ اس نرس نے میرے سامنے بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا۔ اب اسے میرے قدموں تلے بچھنا پڑے گا۔ میں نے دولہا کو ایک بھاری رقم بطور قرض مہیا کر د ی ہے تاکہ وہ لڑکی کی قیمت ادا کر کے اسے بیاہ لائے۔لیکن دولہا کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں کی جائے گی۔ اپنی دلہن کے چھن جانے کا دکھڑا سنانے وہ میرے پاس ہی آئے گا۔میں اس کو قرض میں دی گئی تمام رقم معاف کر دوں گااور اس کی نئی شادی کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے ہوئے اسے کوئی اور دلہن دلا دوں گا۔ اس نرس کو ہر قیمت پر حاصل کرنا میرا اٹل فیصلہ ہے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر یہ نا قابل شکست منصوبہ تشکیل دیا گیا ہے۔ تم چاروں کو خاص طور پر منتخب کر کے دولہا کے ہمراہ چھل جھوک بھیج رہا ہوں۔ اگر تم ناکام واپس لوٹے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارا انجام کیا ہو گا۔

    تم دلہن کو چھین کر لے آؤ۔ میں حجرہ سجا کے رکھوں گا’’۔

    ====================

    اسے اپنے پیشے سے عشق تھا۔ قدرت نے دیوی کے ہاتھوں میں شفا اور اس کے تبسم کو مسیحائی بخشی تھی۔

    تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ہر ڈاکٹر کی کوشش ہوتی کہ رمپا اس کے وارڈ میں ڈیوٹی دے۔اس لییـ کہ وہ فرض شناس تھی۔چنانچہ ہسپتال کی انتظامیہ کی طرف سے وقفے وقفے سے رمپا کوایک نئے وارڈ میں ڈیوٹی پر بھیج دیا جاتا۔ اسی ناطے نو جوانی میں ہی رمپا کو میڈیکل کے تمام شعبہ جات کا وہ تجربہ حاصل ہو گیا جو سینئر نرسوں کے پاس بھی کم کم ہو تا ہے۔

    اس کا پیدائشی نام تو ‘‘رمپا ـ’’ تھا ، لیکن پھِر ایک دن کسی مریض نے اسے ‘‘دیوی’’ پْکارا تو وہ نام اسے ایسا جچا کہ وہ رِمپا دیوی ہی کہلانے لگی۔

    تیکھے پر کشش مارواڑی نین نقش، کھِلتے ہوئے گندمی رنگ اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ قدرت نے اسے نرم دل بخشا تھا۔ وہ جب کسی مریض کے ماتھے پر پیار سے اپنا ہاتھ رکھتی تو مرض کی شدت ختم ہو جاتی۔

    عملے کی غیر حاضری کی وجہ سے کبھی رمپا کو بیک وقت دو مختلف وارڈ بھی سنبھالنے پڑ جاتے اور کبھی اسے سولہ سولہ گھنٹے کی ڈیوٹی دینا پڑتی تو بھی وہ خوشی سے قبول کر لیتی۔

    ہسپتال سے واپس گھر پہنچ کرچند منتظر مریضوں کو بھی دیکھ لیتی۔چھوٹے موٹے زخموں کی مرہم پٹی تو اس کے لیے معمولی بات تھی۔

    ہفتے میں دو چار بار رمپا بڑی بی بی کی خدمت بھی کر آتی جنھوں نے اسے اپنی منہ بولی بیٹی بنایا ہوا تھا۔

    ایک روز رِمپا اپنی ڈیوٹی دینے کے بعد، شام ڈھلے جب واپس اپنے گاؤں کے باہر کچی سڑک پر چلنے والی کھٹارہ بس سے اْتری تو پانچ سات بچوں کے گروپ کو بوڑھی بیری کے درخت کے نیچے اپنامنتظر پایا ۔ رِمپا کو دیکھتے ہی تمام بچوں نے بیک زبان ‘‘دیوی آگئی’’ کا نعرہ ہلند کیا اور رِمپا کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔رِمپا کا ماتھا ٹھنکا کہ اْس کا اِس طرح کا استقبال تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

    اپنے گھر کے قریب پہنچی تو اْسے گھر سے شادیوں پر گائے جانے والے روائتی نغموں کی گونج سْنائی دی.......... ڈھولک کی تھاپ پر۔

    ‘‘گھوٹ دا نانا سْتا پے’’

    ‘‘کْنوار دی نانی نچے ڑی’’

    گھر میں لمّے سے بارات آئی ہوئی تھی ۔ باراتی مہمانوں کے ساتھ ساتھ قْرب و جوار کے رشتے دار

    خواتین اور مرد بھی بن سنور کر بیٹھے، رِمپا کی ہسپتال سے واپسی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے تاکہ اس

    کے گھر پہنچتے ہی،قبائلی رواج کے مْطابِق اْسے دْلہن بننے کی مبارک باد دی جا سکے۔

    اِس اچانک مْنعقِد ہونے والی تقریب سے یکسر بے خبر اور حیرانی کے عالم میں رِمپا گھر آئی مہمان خواتین سے مِِل رہی تھی تو جنجی وال برادری کی بڑی بوڑھیاں رِمپا دیوی کو اْس کی ہونے والی شادی کی مْبارک باد دینے کے ساتھ ساتھ اْسے نصیحتیں بھی کرتی جا رہی تھیں۔

    ‘‘ بیٹا ،گھر سنبھالنا اور بچانا عورت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے’’

    ‘‘ بیٹی،اپنی ساس ، سْسر اور دیوروں کی خدمت سے ہی عزت بنتی ہے’’

    ‘‘ سسرال میں سب سے مِل جْل کر رہنا ہے’’

    سب مہمانوں سے خاموشی سے مِلنے کے بعد، رِمپا نے پیچھے والے کمرے میں جا کر اپنی ماں کو اِشارے اپنے پاس بْلایا۔

    ‘‘ یہ سب کیا ہو رہا ہے ماں؟’’

    ‘‘ میں نے تْمہارا رِشتہ اپنے بھانجے بیجل رام کے ساتھ طے کر دیا ہے۔ کل صبح تْمہاری منگنی اور رْخصتی ایک ساتھ کر دیں گے۔ میری بہن نے تْمہارے رِشتے کے لیے وہ تمام شرائط پوری کردی ہیں جِن کا مطالبہ میں نے اور ْ تْمہارے باپ نے کیا تھا’’۔

    ‘‘ ماں ! تْم نے اور باپو نے مْجھ سے مشورہ تک نہیں کیا اور میری زِندگی کے بارے میں خود ہی سب سے بڑا فیصلہ کر دیا؟۔تْمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ بیجل رام چِٹا ان پڑھ اور نِرا نکھٹو ہے۔ کوئی محنت مزدوری یا ڈھنگ کا کام نہیں کرتا سوائے کبوتر پالنے کے اور کبوتر بازی پر جوا کھیلنے کے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تم اْس کی تْند مزاجی سے بھی اچھی طرح واقِف ہو۔وہ معصوم کبوتر جو بیجل رام کے جوئے میں ہار جانے کا باعث بنے ، تمہارا بھانجا اْس بیچارے کبوتر کو ہر قیمت پر واپس خرید کر سب کے سامنے اْس کی گردن مروڑ دیتا ہے۔ کِسی دِن تمہارے بھانجے نے مْجھے بھی جوئے میں ہار دینا ہے یا پھِر کبھی طیش میں آ کر میری بھی گردن مروڑ دینی ہے۔کیوں مْجھے تم جیتے جی مار رہی ہو ؟’’

    ‘‘ تْم پریشان مت ہو۔ تْمہاری خالہ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ تْمہیں بہت خوش رکھے گی۔ بیجل رام کے عِلاقے کے سردار نے بھی تْمہارے باپ کو تْمہاری حِفاظت کی ضمانت دی ہے۔ اورکہتاہے کہ تْمہاری ملازمت وہاں کے قریبی ہسپتال میں کرا دیگا۔ اْس سردار نے مہربانی کی ہے اور اپنے تین چار بندے بھی بارات کی حفاظت کے لیے خاص طور پر ساتھ بھیجے ہیں’’۔

    ‘‘ ماں، تْہیں معلوم ہے وہ وڈیرہ صِرف مْجھے دیکھنے کے لیئے بیجل رام کو اپنی گاڑی میں بِٹھا کر یہاں ہمارے گھر آیا تھا۔میں نے اْس سردار کی آنکھوں میں شدید ہوس دیکھی تھی۔ اس کی نظروں سے میں خوف زدہ ہو گئی تھی۔ مْجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہ سردار میری کِس طرح سے حفاظت کرے گا ۔ تْمہیں میری لاش دیکھنا بھی نصیب نہیں ہو گی ۔ مْجھے اندھے کوئیں میں مت پھینکو ۔ میری جو قیمت میرے باپ نے وصول کی ہے وہی قیمت چند روز کے اندر اندر میں اپنے باپ کو ادا کر دوں گی۔لیکن اِس بارات کو واپس بھیجو۔ ’’

    ‘‘ پگلی مت بنو۔ہم نے سب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے’’

    رمپا کی ماں نے نہیں ماننا تھا اور اْس نے نہیں مانا۔

    باہر صحن میں ڈھولک بجتی رہی اور رِمپا غم میں ڈوبی ، اندر کمرے میں بیٹھی سوچتی رہی کہ کوئی والدین کیسے اپنی اکلوتی اور سعادت مند بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے ہیں؟

    اْس نے اپنے بچپن کے کھیل کود کے دنوں سے ہی لوگوں کے کپڑے سی کر اور کھجوروں کے نرم پتوں سے رنگ برنگے پنکھے اور چھابیاں بنا بنا کر اور پھِر اْنھیں بیچ کر اپنی تعلیم حا صِل کی ۔

    بڑی مْشکِل سے اپنی عِفت و عِصمت بچا کر اور بھاری بھرکم مغرور امیربیگمات کے ہاں برتن مانج مانج کر اور جھاڑو دے کر ایک مْقدّس پیشے کی تعلیم و تربیت بھی مکمل کر لی ۔

    وہ اکلوتی بیٹی جو کبھی بھی اپنے والدین یا بھائیوں پر ذرا سا بوجھ بھی نہیں بنی بلکہ اپنی اہلیت اور محنت کے بل بوتے پر سرکاری ملازمت حاصل کی۔ ہر ماہ سعادت مندی سے اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ باقاعدگی سے اپنی ماں کے حوالے کر تی رہی ؟۔

    جو اپنی ڈیوٹی سے واپس آکر ہمیشہ گھر کے کاموں میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی۔

    کیاوہ اِتنی بد نصیب ہو سکتی ہے؟

    کیا یہ ظلم نہیں کہ وہ جانوروں کی طرح بیچ دی جائے؟

    خاموش سِسکیوں کے درمیان اسے یہ بھی خیال آتا رہا کہ وہ تو بچپن سے بڑی بی بی کی خدمت کر کے اْن کی دْعائیں لیتی رہی ہے ۔ وہ بڑی بی بی کی دِل سے نِکلی ہوئی دْعائیں کدھر گئیں ؟۔

    اس کے ہاتھوں صحت یاب ہونے والے مریضوں کی دعاؤں کا کیا ہوا؟

    اسے دیوی کا لقب دینے والے مریض کیا ہوئے؟

    باہر صحن میں بیٹھے مہمان سمجھ رہے تھے کہ کل صبح بننے والی دْلہن شرم و حیا کے مارے اندر چھْپی بیٹھی ہے۔

    اور اندر بیٹھی رِمپا نے اپنی مایوسی کی حالت سے نکل کر ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا۔

    اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ اِس گھر میں نہیں رہے گی۔

    اْس گھر میں جہاں سے اْسے جیتے جی ایک جہنم میں دھکیلنے کا فیصلہ کر لیا گیا تھا۔ وہ صبح ہونے سے پہلے چْپکے سے یہ گھر چھوڑ کر چلی جائے گی۔

    وہ اپنے آپ کو ایک گائے بھینس بکری کی طرح بِکنے نہیں دے گی۔

    اگر بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئی تو کہیں دورجاکر نئی زِندگی شروع کرلے گی۔ اور اگر پکڑی گئی تو ویسے ہی

    مار دی جائے گی۔

    یہ ارادہ کرتے ہوئے اْسے بخوبی معلوم تھا کہ رات کے اندھیرے میں چھْپ کر کسی لڑکی کا گھر کی

    دہلیز سے باہر قدم رکھنے کا اْس کے قبیلے میں کیا انجام ہوتا ہے۔

    اگلی صبح بیجل رام کے ساتھ بندھے جانے سے تو بہتر تھا کہ رمپا اپنے اس انجام کو قبول کر لے۔

    اپنے والدین کا پیسے اور سونے کی لالچ میں آکر اپنی بیٹی کے بارے میں یک طرفہ اور سراسر غلط فیصلہ

    ماننے سے تو بہتر ہے کہ وہ سِرے سے زِندگی کی بازی ہی ہار جائے۔

    آج کی رات اْس کے لئے صبر آزما لمحات کی رات ہوگی۔ عین مْمکِن ہے زندگی کی آخری رات بھی ۔ لیکن رمپانے اپنا گھر چھوڑ جانے کا قطعی فیصلہ اور چھل جھوک سے کوچ کرنے کی تیاری کر لی ۔

    اور پھِر جب رات آتی ہے تو چھا تی ہی چلی جاتی ہے۔دیر نہیں لگاتی۔

    کیارمپا کے گھر والوں نے اْس کے اندر کے ارادے اور دِل کی نیت بھانپ لی تھی؟یا یہ اْس کے اندر کا چور تھا جو اْس کو پریشان کر رہا تھا؟

    رات تھی کہ تیزی سے بیتی چلی جا رہی تھی اور مہمانوں اور میزبانوں کے درمیان رمپا کی اگلی صبح ہونے والی رْخصتی کے پروگرام کے بارے میں تفصیلی باتیں تھیں کہ ختم ہونے کو نہیں آرہی تھیں ۔

    لمّے سے آنے والے تمام مرد مہمان، رِمپا کے امیدوار منگیتر سمیت ، رِمپا کے دونوں بھائیوں اور باپ کے ساتھ گھر سے مْلحقہ جانوروں کے باڑے میں چارپائیاں بچھائے ہوئے تھے۔مردوں کی باتیں کرنے کی آوازیں نَصف شب تک رِمپا کو سْنائی دیتی رہیں۔

    مہمان خواتین کو گھر کے صحن میں ہی آس پاس سے چارپائیاں اور بِستر مانگ کر سْلانے کا انتظام تھا۔

    رمپا کی چارپائی کے ساتھ والی چارپائیوں پر لیٹی اْس کی امی اور خالہ کی کھْسر پْسر بعد از نصف شب بھی

    جاری رہی۔

    آخر کو سب سو گئے ....... جھینگروں کے سوا۔

    رِمپا نے گھڑی دیکھی تو رات کا ایک بج رہاتھا۔

    احتیاط کا تقاضہ تھا کہ خاموشی سے نِصف گھنٹہ اور گْذرنے دیا جائے ۔

    نصف گھنٹے بعد، پسینے میں شرابور رِمپا، ہولے ہولے سے چارپائی پر اْٹھ کر بیٹھ گئی۔.....................

    کوئی نہیں جاگا۔

    پھِر دھیرے سے بِستر سے اْٹھ کھڑی ہوئی۔ ........ اب بھی مکمل خاموشی رہی۔

    کامیابی سے گھر سے نکل جانے کے لئے ضروری تھا کہ ذرا سی بھی آہٹ نہ ہونے پائے۔

    اْسے ایسے لگا جیسے چر چرکرتے سارے جھینگر اور رات کے دیگر حشرات اچانک خاموش ہو گئے ہوں۔ اور وہ سارے کے سارے دم سادھے رمپا کے کھیلنے والے خطرناک کھیل کو حیرت سے دیکھ رہے ہوں۔

    اوررمپا کے دِل کی مسلسل تیز ہوتی ہوئی دھڑکنیں ایک بڑے ڈھول کی آواز کی طرح اْسکے کانوں میں

    گونج رہی تھیں۔

    خاموش رات میں ڈم...ڈم ...ڈم بجتا ہوا تنہا ڈھول۔

    پھِر آہستہ آہستہ نرمی سے قدم پہ قدم رکھتے ہوئے رمپا اندر کمرے میں چلی گئی۔

    تب بھی کچھ نہیں ہوا۔ رمپا کے وسوسوں کے علاوہ سب سو رہے تھے۔

    کیا کوئی لمّے سے آنے والا مرد جاگ تو نہیں رہا تھا اور چوکس نیم وا لیٹا ہوا مْنتظر، کہ جیسے ہی رمپا گھر سے باہر نکلنے لگے تو وہ اْسے رنگے ہاتھوں دبوچ لے؟ساری برادری میں اْس کی واہ واہ ہو جائے گی؟

    رمپا نے کمرے میں پڑے پہلے سے تیار اپنی کْل مال و متاع کا چھوٹا سا تھیلا اْٹھایا اور کمرے کی پِچھلی

    کھِڑکی سے نِکل کر، گھر کی عقبی دیوار پھلانگ کر گھر سے باہر نِکل گئی ۔ بستی کے دوسرے کنارے واقع ایک اور گھر کی طرف اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیا۔

    شدت خوف، دل کی دھڑکنِ گونجتی ہوئی آواز اور پسینے میں شرابور۔

    ارمپا دیوی اپنی تمام کشتیاں جلا چْکی تھی۔

    اْس کی اپنے والدین کے گھر زندہ واپسی اب مْمکِن نہیں تھی۔

    رمپا کے لئے اپنی زندگی کی ایک خوفناک ترین رات ۔

    رِمپا کی ماں نے دیکھا کہ وہ کہیں دور ایک دریا کنارے اپنی بیٹی کو جان بوجھ کر ایک تیز رفتار دریا ئی سیلابی ریلے میں دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے اور رِمپا کا باپ چند قدم پر موجود خاموشی سے یہ تماشہ دیکھ رہا ہے۔ رِمپا کی ماں نے جیسے ہی اپنی بیٹی کو بپھری ہوئی لہروں کے حوالے کرنا چاہا تو ڈراؤنے خواب کے خوف سے کانپتے ہوئے اْس کی آنکھ کھْل گئی اور وہ ہڑبڑاکر چارپائی پراٹھ بیٹھی۔

    اْس کی پہلی نظر رِمپا کی چارپائی کی جانب گئی تو وہاں رِمپا موجود نہیں تھی۔

    اْس نے کمرے میں جا کر دیکھا، سارے گھر کو چھان مارا،خاموشی سے، کہ کہیں گھر آئی بارات جاگ نہ جائے، جانوروں کے باڑے میں جا کر دیکھا جہاں تمام مہمان، اْس کا شوہر اور اْس کے بیٹے گہری نیند سوئے ہوئے تھے، لیکن رِمپا کہیں ہوتی تو اْسے نظر آتی۔

    ‘‘ اْٹھو ! رِمپا گھر میں نہیں ہے’’ اْس نے اپنے خاوند، دھنّوں کو جگایا۔

    دھنّوں نیند سے اْٹھتے ہی گھبراہٹ میں چیخا ، ‘‘ کیا؟ کیا؟ ، رِمپا گھر میں نہیں ہے؟’’ دھنوں کی چیخ رِمپا کے جانے کا سن کر نہیں نکلی۔ اسے اپنی بیٹی کا رِشتہ دینے کے بدلے میں وصول ہونے والے پچیس ہزار روپے ڈوبتے نظر آئے۔

    دھنوں کی چیخ سْن کر گھر آئے سب مہمان بھی جاگ گئے ، جانوروں کے باڑے میں مرد اور اندر صحن میں موجود عورتیں بھی۔ پہلے تو ہلکا سا شور ابھرا ،پھِر شور میں تیزی آگئی ، اور پھِر پوری جنجی وال برادری میں ایک کہرام نے برپا ہونے میں دیر نہیں لگائی ۔

    ‘‘ صبح رِمپا کی رْخصتی تھی اور دْلہن ابھی ابھی رات کی تاریکی میں گھر سے بھاگ گئی ہے ’’

    جنجی وال کھوجی رِمپا کے گھر کی دیوار پھلانگ کر اْس کے بھاگتے ہوئے قدموں کے نشانوں کا پیچھا کرتے ہوئے کشن لعل کے گھر پہنچے تو کشن لعل بھی اپنے گھر موجود نہیں تھا۔کشن لعل کے گھر سے نکلتے ہوئے سائیکل کے ٹائروں کے تازہ نشان موجود پائے گئے۔

    جنجی والوں کے نوجوانوں کے جتھے ہاتھوں میں برچھیاں، کلہاڑیاں، ٹوکے اور لاٹھیاں لے کر چھل جھوک سے نکل کر رِمپا اور کشن لعل کی تلاش میں چاروں طرف پھیل گئے۔ سب سے بڑا جتھا ، اپنے ساتھ دو کھوجی لیئے ہوئے، چھل جھوک سے شہر جانے والے راستے پر چل پڑا ۔

    بارات کے ساتھ لمے سے آنے والے وڈیرے کے چار کارندے اگلی صبح دولہا بننے والے سے بھی زیادہ پریشان تھے کہ اگر وہ دْلہن کے بغیر خالی ہاتھ واپس وڈیرے کے پاس پہنچے تو اْن کی خیر نہیں۔

    وڈیرے کے اِن ارادوں سے بے خبر، سب سے بڑی اور تیز دھار برچھی رِمپا کے امیدوار منگیتر بیجل رام کے ہاتھ میں رِمپا اور کشن کا تعاقب کر رہی تھی۔

    چھل جھوک میں اچانک بعد از نصف شب اْٹھنے والا یہ شور ، چھل جھوک سے آدھے میل کے فاصلے پر رات کی رانی ، چنبیلی اور موتیا کے پھولوں کی خوشبو سے معطر ڈیرے کی چھت پر محو خواب ایک نوجوان تک بھی پہنچ رہا تھا۔

    اس نوجوان نے پانچ برس قبل چودہ سال کی عمر میں ہی مردوں کے ساتھ مزدوری کا کام شروع کر دیا تھا۔ اپنی مرضی اور خوشی سے نہیں، اپنے والد کے حکم سے۔ جب وہ نوجوان آٹھویں جماعت کے بورڈ کے امتحان میں بری طرح فیل ہو گیا تو بڑے خان صاحب نے سزا کے طور پر اْسے مزدوروں کے ساتھ باغ میں مزدوری کرنے پر معمور کر دیا۔ روز انہ سکول سے واپسی کے بعد اْسے اپنے ہی مْنشی کے ماتحت کْدال، کسی، کلہاڑہ چلانا پڑتا۔اپنی باری آنے پر دوسرے ملازمین کے ساتھ رات کو کھیتوں میں پانی لگانے کی ذمہ داری بھی نبھانی پڑتی کہ یہی بڑے خان کا حکم تھا اور مْنشی کو بھی اپنی ملازمت کے جانے کا خوف تھا۔شروع شروع میں تو اپنے بیٹے کے ہاتھوں میں پڑے آبلے دیکھ کر بڑی بی بی نے خان صاحب سے اپنے بیٹے کی سزا پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی جو خان صاحب نے یہ کہ کر سختی سے مْسترد کردی کہ ‘‘ تعلیم میں کوتاہی کے معاملے پر بیٹے سے کوئی رعایت نہیں برتی جا سکتی۔وہ پڑھائی پر توجہ دے، اگلے امتحان میں سرخرو ہو کر دکھائے اور مزدوروں سے نکل آئے ’’۔

    آہستہ آہستہ عاویز خان کے ہاتھوں کے چھالے غائب ہوتے گئے اور روزانہ کی جسمانی مشقت سے نہ صرف اْس کے دست و بازو مضبوط ہو تے گئے بلکہ اس کا جسم بھی باقاعدہ ورزش کا عادی ہو گیا اور وہ اپنے ابو کی طرف سے ملنے والی سزا سے لطف اندوز ہونے لگا ۔ پھر وہ دن بھی آگئے جب مشکل سے مشکل کام میں بھی اپنے مزدوروں سے کہیں آگے نکل جاتا۔ تین برس بعد عاویز خان کی سزا اْس وقت معاف کر دی گئی جب اْس نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کر لیا لیکن تب تک وہ بلا ناغہ بدنی کسرت کے نشے میں مبتلا، دنیاوی قباحتوں سے صاف ایک کڑیل سترہ سالہ نوجوان بن چْکا تھا۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کالج میں فٹ بال اور کبڈی کی ٹیم عاویز کے بغیر نا مکمل رہتی ۔

    جس رات رمپا دیوی اپنے گھر سے بھاگی اسی رات ہی عاویز اپنے ڈیرے کی چھت صحرا سے آنے والی دکھنی ہوا کے جھونکوں میں اْن سْہانے سپنوں سے مزیّن میٹھی نیند سویا ہوا تھا جو سپنے آنکھ کھْلتے ہی یاد داشت سے بتدریج غائب ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسی دوران نیند کو خراب کرنے والے ایک نئے خواب کا آغاز ہو گیا جِس میں عاویز کو نہ سمجھ آنے والا اچانک کوئی بے ہنگم سا شور سْنائی دینے لگا۔

    شور کی شِدت بڑھنے سے جب اْسے اپنی نیند کو جاری رکھنا مْمکِن نہ رہا تو عاویزاٹھ بیٹھا ۔ وہ شور ایک خواب نہیں ،بلکہ ایک حقیقت تھی ۔

    یہ وہی شور تھا جو صبح بننے والی دْلہن کے رات کو گھر سے بھاگ جانے پر جنجی وال قبیلے کے مْختلف مسلح جتھوں

    نے بھاگنے والی کی تلاش میں بپا کیا ہوا تھا۔

    بعدازنیم شب ’ جب کسی بستی میں اچانک شور اٹھے تو اکثر اسکی تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔

    ایک وجہ تو کسی کی وفات ہو سکتی ہے ۔ اس قسم کے شور میں سوگوار لواحقین کی خواتین بین کر رہی ہوتی ہیں اور کہیں درمیان میں ایک مرد کی غمزدہ ہوک نکلتی ہے ۔ یہ شور ایک ہی جگہ مرکوز رہتا ہے اور آہ و بکا کی شدت بھی مرحوم یا مرحومہ کی سماجی و معاشرتی و مالی حیثیت کے مْطابق ہوتی ہے۔

    دوسری وجہ کوئی چوری ڈاکے کی واردات ہو سکتی ہے۔اس نوعیت کے شور میں دوڑو ،بھاگو،پکڑو ، جانے ناں پائے کے درمیان دو ایک فائر ہونے کی آوازیں بھی آسکتی ہیں۔

    تیسری قسم کا شور سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ یہ محبت کی کوئی داستان رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کا شور ہوتا ہے۔اس زمرے میں آنے والے شورکا دور بیٹھے سْننے والے کو کْچھ سمجھ نہیں آتا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ اور ہو کیا رہا ہے۔

    عاویز کے خیال میں یہ تیسری قِسم کا شورتھا۔ یعنی یا تو محبت کی کوئ واردات موقع پر پکڑی گئی تھی یا اس سے ملتی جْلتی کسی کہانی کا کوئی باب رقم ہو رہا تھا۔ تاریخ کا بھی سبق یہی ہے کہ مْحبت کی کوئی داستان لاکھ چھْپائے نہیں چھْپتی اور آخر کسی ِروز اپنے مکمل رنگ و روپ کے ساتھ سارے جگ کے سامنے عیاں ہو جاتی ہے ۔

    لوگ بھی ہمیشہ اس بارے میں خاص طور پر اپنی مضبوط چھٹی حِس کے باعث ہر داستان کے وا ہونے کے انتظار میں رہتے ہیں۔

    عِشقِ بلا خیزکی اِس ازلی فِطرت کو آج تک کوئی پریمی جوڑا تبدیل نہیں کر سکا ۔

    یہ پاگل اور اندھا جذبہ کبھی بھی مسلسل مقیّد رہنا پسند نہیں کرتا۔

    پہلے تو شور بستی میں ہی رکا رہا پھرِ یہ ہنگامہ بستی سے باہر جانے والے راستوں پر نکل پڑا ۔

    ً رات کے دو اڑھائی بجے جو کْچھ بھی ہو رہا تھا یہ چھل جھوک کے مالک کے لیے ایک غیر معمولی بات تھی ۔

    اْس نے اپنے آرام کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیئے سوچا کہ جو بھی معاملہ ہے وہ صبح اِس کے ڈیرے پر ہی پیش ہو نا ہے ، تواب اْسے اپنی نیند خراب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    لہٰذا شور شرابے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ سونے کے ارادے سے عاویز نے ابھی پلنگ پر لیٹتے ہوئے پہلو بدلا ہی تھا کہ اْسے اپنی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔

    رات کے تیسرے پہر ..........اتنابے وقت؟

    ‘‘ سائیں، عاویز خان سائیں؟’’

    منشی پیرل کی آدھی سیڑھیوں پر سے ہی آواز آئ۔وہ عاویز سے چھت پر آنے کی اِجازت مانگ رہا تھا۔

    ‘‘ آ جاؤ پیرل ، آجاؤ ’’ عاویز خان نے اسے اوپر چھت پر بلا لیا۔

    ‘‘ سائیں، ایک خطر ناک معاملہ ہو گیا ہے’’ پیرل آتے ہی بولا۔

    ‘‘ کیا ہو گیا ہے پیرل’’؟ عاویز خان نے پلنگ پر لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔

    ‘‘سائیں، کشن لعل ، رمپا دیوی کو اس کے گھر سے تھوڑی دیر پہلے چوری بھگا لے گیا ہے۔ صبح رمپا کی شادی اور رخصتی ہونے والی تھی۔ جوڑے کے کے بستی سے بھاگنے کے تھوڑی دیر بعد ہی رمپا کے گھر والے جاگ گئے ہیں اور شور مچ گیا ہے۔ اور اب لڑکی کے تمام جنجی وال قبیلے کے مرد ’ بھاگنے والے جوڑے کو پکڑنے کے لیے ان کا تعاقب کر رہے ہیں’’پیرل پریشانی کے عالم میں بولا۔

    ‘‘ پیرل ! تْم اچھی خبر نہیں لائے’’عاویز بستر سے اْٹھتے ہوئے بولا۔

    یہ ایک بہت ہی بْری اور تشویشناک خبر تھی۔ چولستان کے وسیب میں کسی لڑکی کو چوری گھر سے نکال لے جانا قتل سے بھی بڑا جرم سمجھا جاتا ہے۔ اورلڑکی کے تمام خاندان پر یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ بھاگنے والے جوڑے کو ڈھونڈیں اور دونوں کو قتل کر دیں۔

    اس معاملے میں یہاں معافی تلافی کا کوئی رواج نہیں ۔ چوری بھاگنے والے پریمی جوڑے کو نتائج کی پرواہ کیے بغیر قتل کرنا ضروری ہے چاہے بعد میں خود پھانسی ہی کیوں نہ چڑھ جائیں ۔ ایسے واقِعات کا انجام زیادہ تر المناک ہی نکلتا ہے۔ اور خاص طور پر جب بھگانے والا لڑکا اور بھاگنے والی لڑکی دو مخالِف قبائل یا دو مختلف ذاتوں سے تعلق رکھتے ہوں۔

    لڑکی کے وارِث، سالہا سال اْس وقت تک بھاگنے والے جوڑے کی مْسلسل کھوج میں رہتے ہیں جب تک اْنھیں ڈھونڈ نہ نِکالیں۔اور چاہے اْن کے بچے بھی ہو جائیں تو بھی اْ نہیں مْعاف نہیں کیاجاتا۔

    ‘‘ تمیں یہ سب کیسے پتا چلا ہے پیرل’’؟ اب عاویز خان پوری طرح بیدار و چوکس تھا اور اْسے تمام تفصیل درکار تھی کیونکہ کشن لعل عاویز خاں کے انتہائی وفادار کارندوں میں سے ایک اور رِمپا دیوی عاویز کی والدہ کی منہ بولی بیٹی تھی۔

    ‘‘ سائیں’ آ پ تو جانتے ہیں کہ کشن لعل مینگھوال ذات سے ہے اور رِمپا دیوی جنجی وال قبیلے کی ۔ دونوں قبیلے شروع سے ایک دوسرے کے پرانے دْشمن ہیں۔ کشن لعل کا ایک رشتہ دار ہانپتا کانپتا آ کر مجھے گھر سے بلا کر یہ سب بتا کے گیا ہے۔ مینگھوال پریشان ہیں کہ اْن کے لڑکے کی جان خطرے میں ہے۔

    اِس وقت تو تمام جنجی وال قبیلے کے مرد بھاگنے والے جوڑے کو پکڑنے کے لئے ان کے پیچھے نکلے ہوئے ہیں لیکن ان کی واپسی پر چھل جھوک میں شدید خون خرابے کا اندیشہ ہے۔جنجی والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کی لڑکی نہ ملی تو وہ مینگھوالوں کی لڑکی اٹھا لیں گے۔مینگھوالوں نے اپنی حفاظت کے لیے مورچے سنبھالے ہوئے ہیں’’

    ‘‘ پیرل ! تْم فوراً چھل جھوک پہنچو اور صبح تک اْدھر ہی موجود رہو۔ وہاں فساد نہیں ہونے دینا۔ سب کو میری

    طرف سے سختی سے بتا دو کہ صبح بڑے خان صاحب فیصلہ کریں گے۔ کشن لعل اور رِمپا تو نہ جانے اب کہاں سے کہاں نِکل گئے ہوں گے’’ ۔عاویز نے اپنے منشی کو ہدایات دیتے ہوئے کہا۔

    ‘‘ نہیں سائیں۔ لڑکی اور لڑکے کو اپنے گھر وں کو چھوڑے زیادہ وقت نہیں گْزرا۔ وہ زیادہ دور نہیں پہنچے ہوں گے۔ ان دونوں کی زندگی شدید خطرے میں ہے۔ اگر کِشن لعل اور رِمپا دیوی پکڑے گئے تو دونوں یقیناً اسی مقام پر ہی مارد ئے جائیں گے۔لڑکی کے خاندان کے تمام مرد اِس وقت کْلہاڑیاں اور لاٹھیاں ہاتھوں میں لئے اْن کو ڈھونڈ رہے ہیں’’منشی بولا

    ‘‘ تو پھِر پیرل ، چھل جھوک جانے سے پہلے ایک اور کام فوراً کرتے جاؤ’’ ۔عاویز خان نے کہا۔

    ‘‘ حْکم سائیں؟ ’’ پیرل نے پوچھا۔

    ‘‘ تْم فوراً دس بارہ بندے تیار کرو اور ابھی ابھی مسلح اور مشتعل جنجی والوں کے اس بڑے جتھے کے تعاقب میں بھیجو جو کِشن اور رِمپا کا پیچھا کر رہا ہے۔ جلدی سے ڈرائیور عاشِق حْسین کو اْٹھاؤ وہ چھوٹی جیپ نِکالے ، اپنے بندے جیپ پر بِٹھاؤ اور جِتنی جلدی مْمکِن ہو وہ رمپا اور کشن کا پیچھا کرنے والے جنجی والوں سے جا

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1