Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)
عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)
عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)
Ebook439 pages2 hours

عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)

Rating: 1.5 out of 5 stars

1.5/5

()

Read preview

About this ebook

عشق جانے طور آمد ایک سماجی رومانی ناول ہے جس کی مصنفہ امایہ سردار خان ہے۔ یہ ناول محبت جیسے خوبصورت جذبے کا ترجمان ہے۔ یہ ناول عارب وقار خان اور انا احد خان کی خاموش اور قدرے پیچیدہ محبت کی کہانی ہے جس میں دونوں اپنے دلوں کی آواز سن کر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستانی کلچر اور خاندانی اقدار میں لکھا گیا یہ خوبصورت ناول آپ کو مدتوں یاد رہے گا۔

LanguageUrdu
PublisherHassan Ali
Release dateMay 3, 2016
ISBN9781311194992
عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)
Author

Hassan Ali

Hassan Ali, founder of http://kitaabghar.com website, which is online urdu books library serving urdu books, novels, and dramas to global urdu reading community for last 12 years (since 2004). kitaabghar.com is also eBooks publisher from Lahore, Pakistan.

Related to عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)

Related ebooks

Reviews for عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad)

Rating: 1.6666666666666667 out of 5 stars
1.5/5

3 ratings1 review

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

  • Rating: 2 out of 5 stars
    2/5
    Asalamu alaikum wa rahmatullah, yahan kese apni story share mr skte hain? Please bataye

Book preview

عشق جانے طور آمد (Ishq Janay Toor Amad) - Hassan Ali

عشق جانِ طُور آمد

امائیہ سردار خان

نوٹ:۔

اس ناول کے جملہ حقوق بنامِ کتاب گھر (http://kitaabghar.com ) محفوظ ہیں۔لہٰذا اس تحریر کی کسی بھی رسالے، ڈائجسٹ،میگزین، ویب سائٹ،سیل فون ایپ یا انٹرنیٹ پرکسی بھی شکل میں کاپی کرنا خلاف ِقانون ہے۔ خلاف ورزی کرنے والے کو قانونی کارروائی کا سامنا اوربھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

انتساب:

یہ کتاب اور اس کے تمام حروف

میری پیاری اور سوئیٹ ممی کے لئے

جو میرے لئے بہت قیمتی ہیں۔

پیش لفظ

میں آپ سے بہت سی باتیں کرنا چاہتی ہوں مگر سمجھ میں نہیں آرہا کہاں سے اور کیسے آغاز کروں اور کیا لکھوں۔

یہ ناول عشق جان طور آمد محبت پر عبارت ہے۔ رشتوں کے بارے میں بات کرتا ہے۔ رشتوں کے بارے میں بات کرو تو محبت کا تذکرہ ضروری ہے۔ رشتوں کی بنیاد میں محبت شامل ہے۔ محبت کے بنا کوئی رشتہ شروع نہیںہوتا… مکمل نہیں ہوتا۔ جب وہ رشتہ کوئی بھی ہو اس میں محبت کا احساس شامل ہوتا ہے جو اس رشتے کو مضبوط اور پائیداری سونپتا ہے۔ ہر رشتے میں محبت کے ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ محبت کا یقین بولتا ہے۔ محبت چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ محبت اپنے ساتھ باندھ لیتی ہے۔ مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے، جکڑ لیتی ہے اور کوئی اس محبت کے احساس سے بچ نہیں پاتا۔ کوئی بھی محبت کے اثر سے بچ نہیں سکتا ہے۔ یہ اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ اس کا اثر زائل نہیں ہوتا۔ محبت فسوں کرتی ہے اور اپنے سنگ باندھ کے ایک نئے سفر پے چلتی ہے۔ اس سے بچاؤ ممکن نہیں ہوتا۔ کوئی تدارک کام نہیں آتا ہے۔ محبت کا یہ احساس شدت سے آپ کو ہر ایک رشتے میں ملے گا۔

یہ ناول کئی دنوں تک زیر قلم رہا۔ کبھی زیادہ وقت ملتا تو لکھ لیتی تھی اور کبھی مصروفیت آڑے آجاتی تو تب موقوف کرکے رکھ دیتی تھی مگر اس ناممکن کو ممکن کرنا چاہتی تھی سو بالآخر میں ایسا کرنے میں کامیاب رہی۔ یہ میرا پہلا سلسلے وار ناول ہے۔ اس سے قبل لکھنے کا آغاز 2002ء میں کیا مگر پھر کچھ ایسی مصروفیت ہوئی کہ اس کے بعد طویل عرصے تک کچھ لکھ نہیں پائی۔

پلٹ کر دیکھوں تو پتہ چلتا ہے زندگی کتنی مصروف کردینے والی ہے مگر کسی قدر تحیر آمیز بھی۔

میں لفظ لفظ گن کے اس ناول کے کرداروں کو شمار کرتی رہی، آگے بڑھاتی رہی اور محبت کرداروں کے تانے بانے بنتی رہی ہے۔

یہ ناول شاید کوئی نئی بات نہیں ہے مگر اسے میں نے بہت دل سے لکھا ہے اور کہتے ہیں کہ دل سے کہی گئی بات دل تک ضرور پہنچتی ہے سو مجھے یقین ہے کہ یہ ناول کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی طریقے سے دل پر دستک ضرور دے گا۔ اس کا مجھے یقین ہے۔

میں چاہتی ہوں آپ اس ناول کو پڑھیں تو کوئی خاص واقعہ ، خاص بات تلاشنے کی کوشش مت کریں کیونکہ یہ تمام کرداروں کی فطری کہانی ہے اور فطری محبت کے ساتھ وہ کردار چلتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ان کرداروں میں شاید بہت سی خاص باتیں ہوں یا شاید کوئی ایک خاص بات بھی نہ ہو مگر عام باتوں میں کوئی خاص بات ایسی ضرور ہوگی جو اثر پذیر ہوگی، جو دل جیت لے گی۔ ویسے بھی محبت ایک اسم ہے اور اسم سے بچنا مشکل ترین عمل ہوتا ہے۔

میںاس لمحے ایسے ہی وقت پر ہوں جیسے کوئی بچہ امتحانی کمرے میں بیٹھ کر امتحان دینے بیٹھا ہوا اور اس کا ذہن یکدم بہت خالی ہوگیا ہو ، سارے لفظ جیسے کھو گئے ہوں۔ اس خالی ذہن کے ساتھ صرف ایک بات یاد ہے کہ محبت کافی ہوگی… سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اور بات سے بات کو آگے بڑھانے کے لئے…!!

انا اور عارب خان کے کردار محبت کی ایک ایسی کیفیت میں ٹھہرے ہوئے ہیں جس میں خاموشی ہے۔ خاموشی کی ایک بات پیچیدہ ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بہت کچھ بہت واضح سنائی دیتا ہے اور کبھی کبھی کچھ بالکل سنائی نہیں دیتا ہے۔ اور اس کی درمیان کی کوئی کیفیت ایسی بھی ہے جہاں خاموشی کی تیسری زبان بات کرتی ہے اور وہ کیفیت کیا ہے۔ شاید آپ ناول پڑھ کر جان پائیں… اور بات آپ کے دل میں گھر کر جائے اور اس سے بچنا ناگزیر ہو جائے۔

میں کتاب گھر ویب سائٹ http://kitaabghar.com کے روح رواں حسن بھائی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی، جنہوں نے اپنی ویب سائٹ پر اس ناول کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

اب تک کے لیے بس یہی ہے۔ اگلے کسی سفر میں پھر بات ہوگی۔ اتنا کہنا چاہوںگی کہ اس ناول کو ضرور پڑھئے۔ اپنی قیمتی آراء دیجئے۔ مجھے بہت اچھا لگے گا آپ سب کی طرف سے اس ناول کے بارے میں سن کر۔ میں منتظر رہوں گی۔ دعاؤں میں یاد رکھئے۔

والسلام

امائیہ سردار خان

12فروری 2016ء



’’یہ کیا ہے انا خان…؟؟!!‘‘سوالیہ نظر وں سے دیکھا تھا۔ اس کا لہجہ ٹھہرا ہوا تھا۔ ۔ اندر کا ساراماحول… سارے راز اس کے لہجے میں تھے۔۔ آنکھوں میں ایک دنیا سمٹ آئی تھی … جیسی پوری جان کسی قیامت کے زیر تھی …!!‘‘

’’کیا چاہتی ہو تم انا احد خان…؟‘‘ وہ جوابدہی چاہتا تھا.. دھیمالہجہ اندرونی خلفشار سے بوجھل تھا۔

’’تم کیوں محبت کے کلیات پر یقین نہیں رکھتیں…؟ کیوں ایک آتش برپا کرکے مجھے الاؤ کی نظر کردیتی ہو…؟!!‘‘ مدھم لہجہ مضطرب تھا۔

انا احد ساکن لمحوں میں بت بنی کھڑی تھی۔ اس کی نظریں حیرت سے عارب خان کو دیکھ رہی تھیں۔

’’میں مستقل ایک خطِ مستقیم پر سفر رہا ہوں… مگر اک تسلسل ہے جو فاصلوں کو بڑھا رہا ہے…کیوں مجھے اپنی بے رخی کی آگ میں جھلسا رہی ہو…؟؟ خاکستر کررہی ہو تم…کیوں تم انجان بن جاتی ہو جیسے تمہارا مجھ سے کوئی تعلق… کوئی واسطہ ہی نہ ہو؟؟ جیسے کوئی ربط ہی نہ ہودرمیان…!!‘‘۔ عارب خان جیسے بہت سی الجھنوں میں گھرا ہوا تھا۔

’’کیسے یوں بیگانہ ہوجاتی ہو…؟ کیسے اجنبی ہو جاتی ہو…؟‘‘ وہ مدھم سرگوشیوں میں کہہ رہا تھا۔ وہ ساکت کھڑی تھی۔

’’کیوں تم لامتناہی فصیلیں کھڑی کردیتی ہو… درمیان…؟ ‘‘ وہ جیسے جواز چاہ رہا تھا۔

’’کیوں ہے یہ گریز…؟ تم کیوں ایسا کررہی ہو انا احد خان…؟ کیا ہے یہ سب؟ یہ بے اعتنائی کیوں ہے… اس کے اسباب کیا ہیں…؟ میں تھک رہا ہوں جواز تلاشتے تلاشتے…!‘‘ اس کے لہجے میں ایک عجیب سی بے بسی تھی…’’کیا تمہیں نہیں لگتا یہ بے سود ہے…؟!!‘‘ وہ لہجہ برسوں کی تھکن رکھتا تھا جیسے۔

انا احد یوں خاموش کھڑی تھی جیسے اس کے پاس عارب خان کے کسی سوال کا کو جواب نہیں تھا۔

’’تم چاہو تو ہزار قفل لگاؤ… طلسم کدوں میں قید کردو مجھے… مقید کردو مجھے ان فصیلوں میں… بند کردو مجھے قلعوں میں…! چاہو تو ہزار قدغن لگاؤ… جیسے تمہارے اختیار میں سب ہے انا خان…! تم چاہو تو ہزار بند باندھو…! حاشیے لگا کر لاکھوں حصوں میں تقسیم کردو… بانٹ دو مجھے ٹکڑوں میں…! گر چاہو تو ان ہواؤں کو میرا مخالف کردو… جس میں تمہاری خوشبو بستی ہے.!!‘‘ وہ ایک لمحہ کو رکا تھا ۔ اسے بغور دیکھا پھر ایک گہراسانس لیا تھا۔

انااحد جیسے وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی مگر زمیں نے اس کے قدم جکڑ لیے تھے۔

’’سچ کہوں…!!! یہ سب لا حاصل ہے…!!! سارے حربے بے کار ہیں‘‘!!…دھیما لہجہ بو جھل تھا۔ اس نے انا کی ساری احتیاطی تدابیر کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

’’جانتی ہو کیا انا احد خان…؟؟ کوئی بھی تدبیر کارگر نہیں…!! اس افسوس کا اظہار کیا… اور انا احد خان کی دھڑکنوں میں تلاطم برپا تھا…!!

’’تم ایک کام کرو… کوئی اسم پھونکو …!! یا پھر کوئی ٹونہ ورد کرو اور باندھ دو مجھے…!!‘‘ اس نے جیسے قیمتی مشورے سے نوازا تھا…

’’یا پھر مجھے چھوؤ اور پتھر کا کردو…!! کردو مجھے اپنا اسیر…!!‘‘ وہ مدھم لہجہ شکوہ کناں تھا… ایک خاموش سی نگاہ کی اس پر… نگاہ ملتی ہے … پھر وہ چہرے کا زاویہ پھیرلیتی ہے۔ اس سے اجنبی ہو جاتی ہے… اور عارب کی تھکن جیسے اوربڑھ جاتی ہے۔ چند ثانیوں تک خاموشی ان کے درمیان رہتی ہے… پھر عارب وقار خان نےانتہائی مضطرب انداز میں اس کی سمت دیکھا تھا۔…

’’تم چاہو تو بے پرواہ بن جاؤ… بیگانہ ہونے کے لاکھ جتن کرو… مگر افسوس! صدافسوس…!!‘‘ وہ اس کی عقل پر ماتم کررہا تھا۔

’’تم چاہو تو لکھ کر رکھ لو… کوئی ترکیب کارآمد نہیں … کوئی تدبیر کام نہیں آئے گی… سب فضول ہے…!! سب وقت کا زیاں ہے…!!مکمل خسارہ ہے…!!صرف خسارہ…!!‘‘ لہجہ دھیما اور پُر افسوس تھا… جیسے اس سے بڑھ کر کوئی اور خیر خواہ نہ تھا…!!

انا کے بازوؤں پر اس کی گرفت مضبوط ۔ اس کی آنکھوں میں ہزاروں داستانیں رقم ہیں… کتنی ہی ان کہی داستانیں پنہاں ہیں… وہ نگاہ اٹھا کر اس کی طرف نہیں دیکھتی… اپنے آپ کو اس کی گرفت سے آزاد کرنا چاہتی تھی۔مگر اس کی گرفت میں سختی اور بھی بڑھ گئی…!!

’’چھوڑو مجھے اور دور ہو تم مجھ سے عارب وقار خان…!!‘‘

’’How dare you? How could you touch me… اپنی حد میں رہو تم…!!‘‘ اس نے دبے دبے لہجے میں احتجاج کیا… اس کی دیوانگی انا کو ہراساں کررہی تھی…

’’کیا چاہتی ہو تم انا خان…؟؟ تم کیوں میری حدود کا تعین کرتی ہو…؟؟ کیوں تم چاہتی ہو میں تمہیں چاہنا چھوڑ دوں…؟؟تم کیوں میرے جذبات پر قدغن لگاتی ہو…؟؟ کیوں تم پابندیاں لگاتی ہو مجھ پر…؟؟ کیا چاہتی ہو تم…؟؟ ہاں بولو…؟؟‘‘ اس کا اصرار بڑھا جیسے وہ سب کچھ جان لینے کا خواہاں تھا…

’’کیا چاہتی ہو تم میرا دل دھڑکنا بھول جائے…؟؟ کیوں ایسیRestrictionلگانا چاہتی ہو…؟؟ کیوں تم چاہتی ہو یہ ناممکن ہوجائے…؟؟ کیوں تم چاہتی ہو میری سانسیں تھم جائیں…؟؟ ‘‘ لہجہ پُر جنوں تھا… جیسے وہ کسی پابندی کو نہیں مانتا تھا…

’’بس کرو عارب وقار خان… یہ پاگل پن ہی ہے …It seems you are insane… ‘‘!! انا نے اسے ڈپٹا تھا…

’’اگر محبت کرنا پاگل پن کے زمرے میں آتا ہے تو تم ایسا کہنے میں حق بجانب ہو۔مگرکیا تم زمین کو سورج کے گرد گردش کرنے سے روک سکتی ہو…؟؟ کیا تم چاند کے نکلنے پر پابندی لگا سکتی ہو…؟؟ جیسے تمہارا اختیار ان سب چیزوں پر نہیں ویسے ہی یہ اختیار مجھ پر نہیں…!! میں ہزار کوشش کروں تمہیں چاہنے سے خود کو روک نہیں سکتا…!! اک بے اختیاری سی ہے میرے اندر باہر ایک آگ جل رہی ہے… ایک الاؤ دہک رہا ہے… اور تمہارا لہجہ بالکل سرد… برف جیسا ہے… جامد اور منجمد کردینے والا… ٹھٹھرا دینے والا…‘‘!! مدھم لہجے میں بے چینی سوا تھی۔انا کی سرد مہری اسے بے کل کر رہی تھی… وہ جیسے شکوہ کرنے میں حق بجانب سمجھتا ہو خود کو…!!

’’جانتی ہوانااحد …آگ اور برف دونوں میں دھواں ہے ..مگر دونوں کتنے الگ ہیں… دونوں میں تضاد ہے۔۔ ایک سن کردینے والا…جامد کردینے والا… اور دوسرا جلا دینے والا… جھلسا کر خاکستر کردینے والا… راکھ بنا دینے والا… !!‘‘ وہ جیسے سرگوشی میں کہہ رہا تھا…پہیلیوں میں باتیں کررہا تھا…اس کا تجزیہ کمال کا تھا۔ اور انا کے پہلو میں دل کا شور مسلسل بڑھ رہا تھا… اک نہ ختم ہونے والا تسلسل تھا…

وہ اسے روکنا چاہتی تھی۔

چھوڑ دو یہ سب فضولیات ہیں۔"!!..وہ اس کے ہر احساس سے انکاری تھی۔۔

’’تم تو قطعی بے خبر ہو… انجان ہو تم… تمہیں تو خبر ہی نہیں… تمہارا یہ برف جیسا سرد لہجہ میرے احساسات کو منجمد کردیتا ہے… جامد کردیتا ہے… میں فروزن ہو جاتا ہوں… ایسے میں دل خاموش ہو جاتا ہے… فکروں میں گھِر جاتا ہے اور دل ناتواں کو وسوسے ستانے لگتے ہیں…!! ‘‘وہ جیسے رازوں پر سے پردہ اٹھا رہا تھا… مدھم لہجے میں برسوں کی تھکن اتر آئی تھی… رازوں کی گٹھڑی میں ان گنت سوالوں کا ایک انبار تھا… پرت در پرت کھلنے والی ہزاروں داستانیں اب بھی ان سنی تھیں… وہ بتانے کا خواہاں تھا… مگر انااحدخان کو ان داستانوں سے آگہی درکار نہیں تھی…!!

’’کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے جیسے تمہیں میری کوئی پرواہ نہیں… تم مجھ سے مخلص نہیں ہو… میرے لیے تم کبھی نہیں سوچتیں… تمہیں سرے سے کوئی سروکار ہی نہیں… کوئی واسطہ ہی نہیں… !! تمہیں مجھ سے کچھ خاص عداوت ہے… تمہیں عادت ہے مجھے اگنور کرنے کی… تمہیں کچھ بھی احساس نہیں ہوتا… مگر مجھے لگتا ہے جیسے سب کچھ تمہارے اختیار میں ہے…!!‘‘ وہ مدھم لہجہ اپنےاندرکتنےشکوے رکھتا تھا… مگرانا خان کو جیسے کسی بات سے کوئی سروکار نہیں تھا… وہ بے خبر تھی… اور بے خبر رہنا چاہتی تھی… اس کی سمت دیکھنے سے گریزاں تھی…اس کی آواز پر جیسے کان بند کرلینا چاہتی تھی… وہ اس کی سمت دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس کی گرفت سے ہاتھ چھڑا کر آگے نکل جانے کی ٹھانی تھی… وہ بے بسی سے اس کی سمت دیکھنے لگی تھی… اور بے بسی سے کہیں زیادہ غصہ تھا ان نگاہوں پر… وہ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی تھی… اس کا بڑھتا جنوں اسے فکروں میں گھیر رہا تھا…مگر عارب کو جیسے پرواہ نہیں تھی…

’’کل اختیار ہے تمہیں میرے سارے زمانوں پر…مکمل اختیار ہے… تم چاہو تو میرے وقت کو روک دو… اور تم جو چاہو تو میرے زمانوں کو بدل دو… اور تم جو چاہو تو اپنی خاموشی سے مجھے ماردو… اگر چاہو تو اپنے لفظوں کے نشتر سے دل چھلنی کردو… چاہو تو میری سانسوں کو روک دو… تمہیں سب روا ہے… تمہیں سارے حقوق حاصل ہیں…!! سارے لمحوں پر تمہاری اجارہ داری ہے… تم جو چاہو سلوک روا رکھو…!!‘‘ مدھم لہجہ آگہی کے در وا کر رہا تھا وہ اسے آگاہ کر رہا تھا… سارے اختیار سونپ رہا تھا …مگر اسے ان اختیارات سے کوئی انسیت نہیں تھی…!!وہ انجان بنے رہنا چاہتی تھی۔اس کوجیسے اس میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا-

’’کیا تم نہیں جانتی انا خان… میری سوچیں تمہاری اجنبیت سے… تمہاری بیگانگی سے… پیرالائز ہو جاتی ہیں… تم میری سوچوں کو مفلوج کردیتی ہو… میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہو!!.دھیمے لہجے میں ان گنت انکشافات تھے۔انا نےحیرانگی سے اس کی سمت دیکھا تھا۔

یہ پا گل پن کی آخری حد ہے عارب وقار خان"۔ انا نے افسوس کا اظہار کیا تھا. وہ دھیمے سے مسکرایاتھا جیسےکوئی دانا ناداں بچے کی بات پر مسکراتا ہے ا۔

تم کچھ بھی کہو ۔تم اختیار رکھتی ہو۔ مگر تم یہ جان لو… سمجھ لو… تم چاہے کتنی ہی رکاوٹیں راہ میں حائل کرو تب بھی میرا تم سے دور رہنا ناممکن ہے… تم چا ہو تو ہزاروں قلعے بنادو… اونچی بلند دیواروں میں مقید کردو… بندشیں لگا دو… کیونکہ مجھے سود و زیاں کی فکر نہیں… میرے قدم میری منزل کی طرف ہی بڑھیں گے…!!‘‘ مدھم لہجہ پر عزم تھا وہ جیسے اپنے ارادوں میں ثابت قدم رہنا چاہتا تھا… اسے اپنے نفع نقصان کا کوئی احتمال ہی نہیں تھا… لہجے میں بے فکری تھی جیسے اسکے پاس مشکلوں کو آسان کرنے کا کوئی خاص گُر تھا…!!

مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘!!وہ بے تاثر نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔

’’تمہیں کیسے بتاؤں… میں تمہاری بے اعتنائی کے صحرا میں جل رہا ہوں… جھلس رہا ہوں… تم مجھے وقت کی زنجیر میں باندھ دیتی ہو… اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دیتی ہو… میں وقت کی ڈور کو تھامنے کے لئے سرگرداں ہوں اور اس وسعتِ صحرا جنوں میں میری محبت کی شدت آبلہ پا ہے… مگر افسوس تمہیں اس کا کوئی ملال نہیں… کوئی خیال نہیں میرا… تم راستے فاصلوں کی صورت پھیلا رہی ہو… اور میں انہیں سمیٹنا چاہتا ہوں…!!‘‘ دھیما لہجہ برسوں کے شکوے لمحوں کی پوٹلی میں باندھ رہا تھا… آنکھوں میں اضطرابیت کے ڈیرے تھے… وہ نگاہ اٹھا کر اسے دیکھتی ہے… چند لمحوں تک خاموشی رہتی ہے…وہ لب بھینچ لیتا ہے… اس نے آہستگی سے اس کے ہاتھ اپنے بازوؤں سے ہٹایا تھا … اپنے آپ کو اس کی گرفت سے آزاد کرا یا تھا اور اس کے اور اپنے درمیان فاصلوں کو بڑھا دیا تھا … وہ چپ چاپ کھڑا اسے دور جاتا دیکھتا رہا تھا ۔ وہ چلتی ہوئی وہاں سے نکل گئی تھی…!!

٭…٭…٭

وہ ایک Assignmentپر ورک کر رہی تھی جب فون کی بیل بجی تھی… اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایاتھا … اسکرین پر فہد حسن کا نام جگمگا رہا تھا… اس نے کال پک کی…’’ہیلو کہاں تھی تم…؟؟ میں کب سے تمہیں کال کررہا تھا… آج کل تم کچھ زیادہ ہی بزی ہوگئی ہو… تمہیں تو میری کوئی پرواہ ہی نہیں… مجھے ایسا لگنے لگا ہے اب…!!‘‘ وہ شخص عجیب تھا ہمیشہ کی طرف… اس کا شکوہ انا کی سمجھ سے بالاترتھا… جب وہ اس سے سب Expectکرتی تھی تو وہ خاموش رہا تھا… اور اب جب اس نے ہاتھ کھینچ لیا تھا تووہ احساس جتانے آگیا تھا… اسے انا کی پرواہ ہورہی تھی… کہ وہ اجنبی ہو رہی تھی… وہ بھول رہا تھا کہ فاصلے اس کی اپنی طرف سے تھے… یہ بیگانگی اس کی اپنی سونپی ہوئی تھی… وہ جواب دیتے دیتے تھک گئی تھی تو اس نے اچانک ہی ہاتھ کھینچ لیا تھا…اور یہی بات شاید فہد حسن کو کھل رہی تھی۔ وہ شکوہ کررہا تھا۔ یہی شکوہ وہ کچھ دن پہلے تک وہ کرتی تھی اور وہ اسے ٹائم نہیں دے رہا تھا… وہ گھنٹوں اس کی کال کا انتظار کرتی رہی… کتنے ہی Messagesچھوڑتی اور اس کے جواب کے انتظار میں آنکھیں اسکرین پر جمائے رکھتی… مگر جواب ناپید ہوتا تھا…

’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں… وہ بس ایک Assignmentپر ورک کررہی ہوں. اس نے توجیہہ پیش کی تھی۔ وضاحت ضروری تھی۔

’’ آپ کیسے ہیں…؟؟‘‘ وہ پوچھ رہی تھی

’’تمہارے بغیر کیسا ہو سکتا ہوں میں…؟؟ وہ لگاوٹ سے کہہ رہا تھا… انا حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکی… وہ جتا رہا تھا… اسے انسیت تھی اس رشتے سے… مگر انداز بہت کھوکھلا تھا…

’’آج اتنی لگاوٹ کیوں دکھا رہے ہیں آپ…؟؟ سب خیریت تو ہے نا…؟؟‘‘ انا نے جتایا تھا… وہ کہے بنا نہیں رہ سکی تھی۔

میری فیانسی ہولگاوٹ تو فطری سی بات ہے" وہ باور کروا گیا تھا۔

سنو ایک ضروری کال آرہی ہے تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔۔ ۔ مقصد خیریت دریافت کرنا تھا… چلو ٹھیک ہے میں ابھی بزی ہوں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں… ٹیک کیئر… بائے…‘‘ وہ اگلے ہی لمحے فون رکھ چکا تھا… اس کا جواب سنے بغیر…!! وہ کتنی ہی دیر کھڑی فون کو دیکھتی رہی … وہ ایسا ہی تھا… اس کا مزاج عجیب تھا… پل میں تولہ پل میں ماشہ… کیسا رشتہ تھا ان کے درمیان جس میں کوئی لگاوٹ نہیں تھی نہ ہی محبت کا احساس تھا.. …!!انکل حسن کے انتقال کے بعد سے فہد حسن کے برتاؤ میں بہت تبدیلی آگئی تھی۔ان کی موجودگی میں وہ بہت concerned تھا۔مگر اچانک سے وہ بدلنے لگا تھا ۔ انا کواس کا برتاؤ سب وسوسوں میں ڈال رہا تھا حسن کریم احد کے کزن اور بہترین دوست تھے ان کی دلی خواہش تھی کہ انا ان کی بہو بنے.جب تک وہ زندہ تھےتو سب کچھ ٹھیک تھا مگر ان کے بعد چیزیں بدلنے لگیں تھیں.۔فہد حسن بدلنے لگا تھا۔وہ الجھن میں پڑ گئی تھی۔وہ جتنا سوچ رہی تھی مزید الجھ رہی تھی

اس نے ایک گہرا سانس لیا تھا.. فون کو سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا … اسی وقت ثناء اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ اس کو یوں چپ چاپ کھڑا دیکھ کر بولی تھی.

’’ کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا…؟؟ کہیں فہد بھائی کی کال تو نہیں تھی…؟؟ کیونکہ ان سے بات کرنے کے بعد تمہارے چہرے پر یونہی ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں… ایسے لگتا ہے جیسے وہ تمہارے منگیتر نہیں بلکہ کوئی جن ہوں جو تمہاری سانسوں کو چند لمحوں کے لئے بند کردیتا ہو…!! یا پھر تم کوئی معصوم پری ہو جسے جن نے اپنی قید میں ڈال رکھا ہو…!!‘‘ثنا کا تجزیہ کمال تھا۔ وہ اس انداز میں بول رہی تھی کہ انا اپنی مسکراہٹ کو روک نہ سکی تھی…!!

’’ہوں…دیٹس لائک آ گڈ گرل… چلو دادی اماں تمہیں بلا رہی ہیں…!!فیا آپی اپنے کیوٹ بچوں کے ساتھ آئی ہیں… تمہیں بہت مس کر رہی ہیں…!! وہ اس کا ہاتھ تھام کر جیسے کھینچتے ہوئے بولی تھی… مگر انا کو کچھ وقت درکار تھا… وہ اس کیفیت میں نہیں تھی کہ کسی کا سامنا کر سکتی تھی۔ اس کا چہرہ سب کہہ دیتاتھا۔ وہ جانتی تھی اور وہ کسی کو پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی… جو بھی ہوتا آیا تھا… وہ اسے خاموشی سے جھیلتی آئی تھی… بس ایک تھکن اس کے اندر اتر رہی تھی… وہ زبردستی مسکرائی تھی۔

’’ہاں چلو تم… آتی ہوں میں… مجھے فریش ہوجانے دو…صرف دو منٹ!‘‘

’’ارے یار تمہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں… شیروں کے منہ دھلے ہی ہوتے ہیں… ایسا دادی جان کہتی ہیں…!! ثنا کا سینس آف ہیومر بہت اچھا تھا… وہ ہر بات کو چٹکیوں میں اڑا دیتی تھی…

’’تم بھی نا…!!‘‘ وہ گھور کر رہ گئی تھی۔

’’دیکھا تم بھی مان گئیں نا میں کمال ہوں…!!‘‘ ثناء نے مسکراتے ہوئے کہا…!!

’’ہاں میں تو مانتی ہوں مگر یہ اور دوسرا کون ہے جو اس کا معترف ہے…؟؟‘‘ انا نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہاتھا۔

’’کوئی نہیں… تم بھی نا… بات پکڑتی ہو… چلو اب جلدی چلو…!!‘‘ثناء اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی طرف بڑھی -انا نے اس کے ساتھ پیش قدمی کی تھی۔

٭…٭…٭

’’اگر میں مر بھی جاؤں تو اس ایک شخص کو میرے قریب کھڑے مت ہونے دینا…!! اسے میرا چہرہ بھی نہ دیکھنے دینا…!! یہ وہ شخص ہے جس نے اس دنیا میں سب سے زیادہ مجھے دکھ دئیے ہیں… اس کی وجہ سے میرے دل پر گہرے گھاؤ لگے ہیں۔ میرادل ہی نہیں میری روح بھی زخمی ہوئی ہے… درد نے میرے اندر پنجے گاڑ لئے ہیں… میں نے بہت برداشت کیا ہے… بہت درد سہا ہے… بے شمار اذیت سے گزرنا پڑا… ہر لمحہ ایک عذاب کی طرح تھا… ان لمحوں کا حساب نہیں… کوئی گنتی نہیں… کوئی شمار نہیں… ان کی کوئی معافی نہیں… اس کا کوئی حساب نہیں… کوئی سدِ باب نہیں… اس اذیت کا کوئی مداوا نہیں… دل کے گھاؤ دن بدن بڑھتے جارہے ہیں… درد نا سور بن گیا ہے… وہ دن دور نہیں جب دل اس درد سے رہائی پاجائے گا…‘‘!! وہ رو رہی تھی۔ اس کے آنسو اس کی تکلیف کے گواہ تھے… اس کی تکلیف کو اور بڑھا رہے تھے…!!

’’ایسا مت کہو نیا…ایسی بری باتیں کبھی منہ سے مت نکالنا…کیا تم نہیں جانتیں تم ہمارے لیے کتنی اہم ہو…؟؟ تم میری بہترین دوست ہی نہیں بہن بھی ہو… تم بہت عزیز ہو ہمیں… تایا جان، تائی جان، عارب، دادی جان سب تم سے بہت پیار کرتے ہیں… اگر وہ یوں تمہیں روتا ہوا دیکھیں گے تو کتنا دکھی ہونگے…!! تم اپنی بیٹیوں کے لیے گھنا سایہ ہو… اور شجاع بھائی بھی تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ تمہارے بغیر رہ نہیں سکتے…!!‘‘ انا نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے

Enjoying the preview?
Page 1 of 1