Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

کیڑُو
کیڑُو
کیڑُو
Ebook180 pages1 hour

کیڑُو

Rating: 3.5 out of 5 stars

3.5/5

()

Read preview

About this ebook

ناولٹ ’کیڑو‘ اسی سال پنجابی کے گرمکھی اور شاہ مکھی رسم الخط کے علاوہ ا ر دو میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ بھی عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ ناولٹ کی کہانی اس کے پانچ کرداروں، کیڑو، حلیمہ، نائلہ، دلجیت اور ازابیلا کے گرد گھومتی ہے جو پاکستان یا انڈیا سے آ کر کینیڈا کے شہر سرے میں رہتے ہیں۔ ان کرداروں کے سہارے فوزیہ نے کہانی کا جو جال بُنا ہے اس کے تار برصغیر کے طبقاتی استحصال اور سماجی تضادات سے تخلیق کئے گئے ہیں۔

حلیمہ، جس کا پورا نام حلیمہ ایلس بی بی ہے، کہانی کا مرکزی کردار ہے۔ اس کی ماں سکھ مذیب سے تھی جسے بٹوارے کے ہنگاموں میں مسلمان بنا دیا گیا تھا۔ زندگی کے اتار چڑھاو نے خود حلیمہ کو پہلے مسلمان، پھر عیسائی اور دوبارہ مسلمان بننے پر مجبور کیا۔ اس طرح وہ خود کوان تمام مذہبی روائتوں کی وارث سمجھتی ہے۔

ناولٹ کا دوسرا بڑا کردار حلیمہ کا بیٹا کیڑو ہے۔ وہ پاکستان میں مذہبی جنو نیوں سے بمشکل اپنی جان بچا کر کینیڈا آ گیا تھا کیوں کہ وہ عیسائی تھا۔ یہاں آ کر محنت مزدوری کرتا رہا اور اب ایک گارمنٹس کمپنی کا مالک ہے۔ اس نے اپنی ماں کو بھی یہیں بلالیا ہے جو اب اس کے ساتھ ہی رہتی ہے اور اس کا اور اس کے دوستوں کا خیال رکھتی ہے۔

لوگ اکثر اس کے عجیب و غریب نام کی وجہ تسمیہ پوچھتے ہیں جو اسے خود بھی معلوم نہیں۔ کیڑو کی رفیق کار نائلہ جب حلیمہ سے پوچھتی ہے کہ اس نے اپنے بیٹے کانام کیڑو کیوں رکھا تووہ کہتی ہے: ”ارے بیٹی، ہم کیڑے مکوڑوں کو نیچ سمجھتے ہیں، مگر کیڑے چھپ چھپا کر جینا جانتے ہیں ۔ اپنے مقصد کے پورے، سخت جان بہت چھوٹے، بڑے، رینگتے، چلتے، اڑتے ، قسمیں گنی نہیں جاتیں۔“

اس کی دانست میں کیڑے صرف انسان کے اردگرد ہی نہیں خود اس کے اندر بھی ہوتے ہیں: ”ساتھ یہ کہ میں نے دیکھا، کیڑا ہر جگہ ہے، اندر بھی اور باہر بھی۔ جسم کے جراثیم ہمارے اندر بستے ہیں۔ باہر میں جہاں گئی ہوں، چلتی، اٹھتی، بیٹھتی، گرتی، پڑتی، سوتی، کھاتی، ہر جگہ ہر ٹائم کیڑے میرے ساتھ رہے ہیں۔ بائبل میں لکھا ہے، دنیا آخر مسکینوں کی ہے، مطبل انہی کیڑوں کی ہے۔“

یہاں اس کا استدلال یہ ہے کہ چونکہ کیڑے اپنی ذات میں گری پڑی مخلوق ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی ایک طرح سے مسکینوں میں شامل ہیں۔ اس کے نزدیک اس نام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے بیٹے کے مذہب یا فرقے کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ مسلمان ہے، ہندو ہے یا عیسائی ہے۔

ناولٹ کی زبان صرف قاری سے ابلاغ کا طریقہ کار ہی نہیں کردار کے ماحول اور اس کی تہذیبی رواتوں کا آئینہ بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کی ہر کردار کی زبان ایک الگ لہجہ لئے ہوئے ہے۔ زبان کے علاوہ منظر نگاری اور اردگرد کے ماحول کی عکاسی نے کرداروں کو اور بھی نکھار دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کردارنگاری، زبان و لہجے کی سچائی اور منظر نگاری کے امتزاج نے ناولٹ کو زندگی کے حقیقی رنگوں سے قریب تر کر دیا ہے۔

یہ تمام کردار اپنے اپنے ماضی کے نفسیاتی بیگج کے ساتھ ہجرتوں کے نت نئے تجربات سے گزرے ہیں جو ان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ لیکن ان سب میں ایک خاصیت مشترک ہے۔ جو ناروا سلوک اور پابندیاں انہوں نے اپنے ماحول میں دیکھی تھیں وہ اب ان سے ہزاروں میل پیچھے رہ گئی ہیں۔ ان کا نیا سماج اگرچہ نسلی تفریق، صنفی ناانصافیوں اور مذہبی نفرتوں سے پاک تو نہیں لیکن اب یہ اپنے معاشروں کیطبقاتی اور ذات پات کی ان زنجیروں سے آزاد ہیں جن سے وہ زندگی بھر نجات حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

یہ ناولٹ انڈیا اور پاکستان کی اس نسل کی داستان ہے جو بٹوارے کے آس پاس پیدا ہوئی اور پھر کینڈا چلی آئی تھی اور اب یہی اس کا وطن ہے۔ اس کے کردار ہندوستان کی تقسیم کے وہ وارث ہیں جو نہ صرف اپنے سماج کی چکی میں پس کر نکھر گئے ہیں بلکہ ایک نئے سماج کی نسلی اور لسانی تفریق کے مر حلوں سے بھی کامیاب و کامران گزر چکے ہیں۔ ناولٹ کے آخری باب میں یہی سب لوگ اپنے دکھوں اور غموں کی دنیاوں سے پرے دور دیس میں اپنی ایک الگ دنیا بسا کر ایک دوسرے کو اس کی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ قبول کر کے زندگی گزار رہے ہیں۔

فوزیہ رفیق کا یہ ناولٹ دیسی اور پردیسی سماجوں کے کئی پس پردہ گوشوں کو آشکار کرتا ہے۔ کہانی میں ذات پات کی تفریق، عورت کا استحصال، مذہبی تشدد، طبقاتی جبر، جنسی رویے اور رنگ و نسل کے تعصبات کے وہ مسائل ہیں جن کا اظہار دیسی ادب میں بہت کم نظر آتا ہے۔

پا نچ دیسیوں کی یہ داستان پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ دھان پان سی وہی لڑکی جس نے اپنی شعوری زندگی کا آغاز لاہور سے کیاتھا، ایک لمبے سفر کی دھوپ چھاوں سے گزر کر کندن بن چکی ہے!
ڈاکٹر قیصرعباس

LanguageUrdu
Release dateJun 25, 2020
ISBN9780463425213
کیڑُو
Author

Fauzia Rafique

A South Asian Canadian writer of fiction and poetry, Fauzia writes in English, Punjabi and Urdu. She has published three novels: ‘Keerroo’ (insectoo) Punjabi shahmukhi (Sanjh Publications 2019 Lahore PK), ‘Skeena’ Punjabi gurmukhi (Sangam Publications 2019 Patiala IN), and ‘The Adventures of SahebaN: Biography of a Relentless Warrior’ English (Libros Libertad 2016 Surrey CA). She was recognized in 2012 by peer group WIN Canada as ‘Distinguished Poet & Novelist’ for her first novel ‘Skeena’ (Libros Libertad 2011) and the first chapbook of English and Punjabi poems ‘Passion Fruit/Tahnget Phal’ (Uddari Books 2011). Her eBook of poems ‘Holier Than Life’ was published in 2013. Earlier, she edited an anthology of writings of women of South Asian origin, ‘Aurat durbar: The Court of Women’ (Toronto 1995). In Pakistan, Fauzia worked as a journalist and screenwriter.Through creative writing, blogging and community development work Fauzia supports freedom of expression and equality. In 2013, she declined Queen Elizabeth II Diamond Jubilee Medal to protest against Canadian Government and British Monarchy for refusing to meet hunger-striking Indigenous leaders. She publishes blogs on Punjabi literature, blasphemy and honor killings. She is a co-founder and the coordinator of Surrey Muse Arts Society (SMAS).

Related to کیڑُو

Related ebooks

Related categories

Reviews for کیڑُو

Rating: 3.5 out of 5 stars
3.5/5

2 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    کیڑُو - Fauzia Rafique

    1

    1

    کیڑُو

    ناولٹ

    فوزیہ رفیق

    شکرگزاری

    ان دوستوں نے کیڑو کے مسودے کے بارے میں اہم باتیں بتا کر اس کو بہتر بنانے میں مدد دی: فائزہ رعنا، شاہد مرزا، اعجاز سید، چندا اور امجد سلیم منہاس۔

    سادھو بننگ اور ہریندر ڈھاہاں صاحبہ نے 'دلجیت' کے حصے پہ نظر ڈالی اور کچھ پہلو واضع کئے۔

    امتیاز پوپٹ اور پریسیلا سن شائن ایگل کی وجہ سے کجھ کرداروں کو تقویت ملی۔

    بی جی کی تابعداری۔

    مریم، یرمیاع، عائشہ، حفصہ، تائسہ، اییو اور یونس سے محبت۔

    میری خوبصورت اور دانا بہن سلمہ کی مہربانی۔

    پاکستان کے اندر باہر میرے خاندانوں کی خیر۔

    خصوصی شکر گزاری ٹم ہیوم اور ان کی ساتھی کیرولین ہیوم کی جنہوں نے 'کیڑو' کی شروع کہانی کا مسودہ 1978 سے برائٹن انگلینڈ میں سنبھال رکھا اور مجھے 2014 میں وینکوور آن پہنچایا۔ اگر وہ نہ محفوظ رکھتے اور نہ انٹرنیٹ سے مچھے ڈھونڈھ کر مسودہ دیتے تو یہ ناولٹ لکھا نہیں جاسکتا تھا۔

    اردو ایڈیشن کی ادارت کیلۓ عباس آر کاظمی کی ممنون ہوں۔

    فوزیہ رفیق کے پنخابی ناولٹ 'کیڑو' کا اردو ایڈیشن

    فوزیہ رفیق 2020

    تمام حقوق بحق مصنف محفوظ

    ترجمہ : فوزیہ رفیق

    ادارت : عباس آر کاظمی

    کور آرٹ : فوٹو– دانیال رشید، پینٹنگ – شاہد مرزا

    کور ڈیزاين : مریم زہرا ڈی

    پنجابی (شاہمکھی) ایڈیشن : سانجھ پبلیکیشنز، لاہور 2019

    پنجابی (گرمکھی) ایڈیشن : پرپل پوپی پریس، وینکوور 2020

    پبلشر : پرپل پوپی پریس، وینکوور

    جون 2020

    کہے حسین سہاگن سا ای' جو گل تھیں واہندی نچی

    مادھو لال حسین

    لاہور، 1538-1599

    رندیپ پوریوال

    کے نام

    پہلا حصہ ۔۔۔۔۔ کیڑُو -----

    دوسرا حصہ ۔۔۔۔۔ حلیمہ -----

    تیسرا حصہ ۔۔۔۔۔۔ نائلہ -----

    چوتھا حصہ ---- دلجیت -----

    پانچواں حصہ ---- بیلا -----

    آخری بات ۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی دہائی کا پہلا سال

    پہلا حصہ

    کیڑو

    ۱

    بے بے کے آنے میں تیس گھنٹے رہ گئے ہیں۔ وہ آج ساڑھے تین بجے لاہور سےچلے گی اور چوبیس گھنٹے کا سفر کرتی کل ساڑھے چاربجے وینکوور ائییر پورٹ پہنچ جائے گی۔ تیس گھنٹے رہ گئے ہیں ابھی تک نہ گھر صاف ہوا ہے، نہ نئی بیڈ شیٹیں آئی ہیں اور نہ کوئی لڑکی ملی ہے۔ ویئر ہاؤس کے سامنے گاڑی لگاتے مجھے ٹھنڈے پسینے آ گئے۔ دنیا راضی ہو نہ ہو، ایک ماں مجھ سے ناراض نہ ہو۔ میں نے جیب سے ٹم ہارٹن کا ٹیشو نکال کر ماتھے پہ پھیرا۔ یہ سب کام فٹافٹ ہو جائیں گے یار، پریشان نہ ہو ، میں خود کو سمجھاتا گاڑی کا دروازہ کھول کر باہرنکلا تو میری یونٹ سامنے تھی۔ اندر جانے سے پہلے کھڑے ہو کر میں نے دروازے کو بے بے کی نظر سے دیکھنا چاہا مگر بات نہیں بنی۔ میں نے کسی اجنبی کی نگاہ سے دیکھا، کریم کلر کے صاف ستھرے دروازے پر انگریزی کے سیاہ حروف۔

    33یونٹ #

    حلیمہ بی بی انٹرپرآئیزز لمیٹڈ

    بے بے کو اتنی انگریزی تو آتی ہے، وہ اپنا نام صاف پڑھ لے گی، ' انٹرپرائیزز' پر بیشک اٹک جائے۔ اپنا نام دیکھ کر خوش تو ہو گی۔ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ ہال کمرے کا سرخ اور نیلے ڈیزائین والا وال ٹو وال قالین صاف ستھرا تھا، میرے بائیں ہاتھ بڑی کھڑکیوں کے آگے دس بارہ سلائی مشینوں پر آٹھ دس عورتیں کام کررہی تھیں۔ بائییں ہاتھ سفید کاؤنٹر پر کالے بالوں کی ایک ٹوکری کے نیچے نیلی ڈبیوں والی ٹینک ٹاپ میں لپٹی دو گول گول چھاتیاں پڑی تھیں۔ مجھے ہول آ گیا۔ میں نے گھبرا کر اجنبی کی نگاہ کو پرے کیا اور اپنی نگاہ سے دیکھا۔ وہ آنٹی نائلہ تھی، ورک روم کی سپروائیزر اور میرے بزنس کی اسسٹنٹ مینیجر۔

    ہیلو آنٹی، میں اپنی سوچ پر نادم ہوتا، خواہ مخواہ کی گرمجوشی دکھاتا، سیدھا اپنے دفتر کی جانب بڑھتا گیا۔۔

    آج تو آپ پندرہ منٹ پہلے آ گئے ہیں، آنٹی کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل کر میری جانب آئی۔

    کام بہت ہے آج ، میں بنا اس سے نظر ملائے چلتا گیا۔ میرے کمرے کے باہر لکھا تھا: 'محمد حسین خان کیڑو، پریزیڈنٹ'۔ بے بے کو پسند آئے گا۔ اندر کھڑکی کھلی ہوئی تھی، اس کے ایک طرف ایک بڑا ڈیسک تھا اور دوسری طرف چھوٹا، باقی کمرہ خالی۔ اس کمرے میں چار مینیجیروں کے اور ایک اکاؤنٹنٹ کا ڈیسک ہوتا تھا، وہ پچھلے اونر ساتھ لے گئے۔

    پندرہ کالیں آئیں، چار انٹرویو سیٹ ہوئے ہیں، آفٹر سیون، پیچـھے آنٹی بولتی ہوئی آئی۔

    پندرہ میں سے چار؟

    پرابلم رات کی ہے، لڑکیاں رات رہنا نہیں چاہتیں۔

    چلیۓ، ٹھیک ہے، میں سات بجے سے پہلے گھر چلا جایا کروں گا۔

    اوکے، پھر سیون ٹو سیون کر لیتے ہیں، آنٹی واپس مڑ گئی۔

    آنٹی، گھر کی صفائی کیلئے کسی کو ہائیر کر لیا ہے آپ نے؟

    ہاں جی، جو کمپنی آفس کرتی ہے، ان کا کزن۔ ایک دو ماہ ہوئے ہیں ادھر آئے، کپل ہے۔ ریٹ سب سے بیسٹ۔

    کب کریں گے؟

    کل صبح۔

    تھینک یو۔ آپ آج بیڈ شیٹیں لے آئیں گی؟

    ہاں جی ضرور، مجھے تولئے لینے سیئرز جانا تھا۔ دو سیٹ لے لوں کوئین سائیز کے؟

    جی دو سیٹ۔ میری مدر پنک رنگ بہت پسند کرتی ہیں اور پھولوں والے ڈیزائین۔

    تھینکس فار ٹیلنگ می، نہیں تو میں ڈبیوں یا لکیروں والی شیٹیں لے آتی جیسا کہ آجکل ٹرینڈ ہے، آنٹی دروازے کی طرف گئی اور پھر مڑ آئی۔ اوہو، سر، میں بھول گئی تھی، آج دسویر کا ڈے آف ہے، اگر میں باہر گئی تو ورکروں کو کون دیکھے گا؟

    میں ادھر ہی ہوں، سیلز میٹنگ کیلئے دو بجے نکلوں گا، آپ واپس آ گئی ہوں گی تب تک۔ کیا کام ہو رہا ہے آج؟

    وہی ہوٹل یونیفارم۔

    ٹھیک ہے۔ آپ انٹرویوز کیلئے ادھر ہی ہوں گی نا؟

    میں تو ساڑھے پانج۔۔۔

    نہیں نہیں آنٹی، پلیز آپ انٹرویو میرے ساتھ کریں، آپ کے بغیر کام نہیں بنے گا، میں گبھرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ واپسی پر آپ کو گھر ڈراپ کر دوں گا۔

    اور آپ کے انکل کا ڈنر؟ آنٹی نے دائیں ابرو اٹھا کر مجھے دیکھا۔

    بالکل، ڈنر مجھ پہ۔ نہاری بہت پسند کرتے ہیں انکل، ان کے فیورٹ ریستوران سے پک اپ کر لیں گے۔

    اوکے، میں پھر سیئرز سے ہو آتی ہوں۔

    آنٹی خوش ہو گئی لگتی تھی، مجھے تسلی ہو گئی۔ آنٹی خوش ہو تو سب کام سیدھے ہو جاتے ہیں۔ آج وہ میری اسسٹنٹ مینیجر ہے، کل مینیجر ہو گی اور پھر پارٹنر۔ آنٹی خود بھی بہت اچھی ہے، اوپر سے اس کے شوہر انکل رحیم کے مجھ پر احسانات بھی ہیں ۔ اس ملک میں پہلا جاب اسی نے دیا، مجھے سیکیورٹی کا کورس کرایا، اور یہاں سرے شہرمیں سیٹ بھی کیا۔ میں نے ڈیسک پر چیزیں ادھر ادھر کھسکائییں مگر کسی کام میں دل نہیں لگا، دھیان بے بے کی طرف تھا۔

    میری بے بے کی دو بری عادات ہیں، اب تک نہیں گئیں۔ إیک تو ہر بات میں اپنے مطلب کا مطلب ڈال دیتی ہے اور دوسرا سمجھتی ہے کہ میں کوئی جینیئس ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے، میں إیک بدشکل، سڑیل اور گُھنا بچہ تھا۔ ٹھیک ہے، کالونی کے دوسرے بچوں سے الگ لکھائی پڑھائی کی طرف میرا رجحان تھا مگر وہ میری عقل کی نہیں، عرفان صاحب کی مہربانی تھی۔ عرفان صاحب کالونی کے ایک ہی سکول کے ہیڈ ماسٹر کا اکلوتا بیٹا تھا، مجھ سے بڑا بھی اور تگڑا بھی۔ اسے گھوڑا گھوڑا کھیلنے کا شوق تھا۔ سکول کی بلڈنگ کے پچھے ان کی کوٹھی میں سرخ قالین والے بڑے کمرے کے درمیان میں چاروں ہاتھ پاؤں پہ ہو جاتا۔ جانگیہ پہنتا نہیں تھا، وہ نیچے دیکھ کر پہلے بہت ہنستا، پھر اوپر یٹھ جاتا اور کہتا گنتی کرو۔ ’ون‘، وہ کہہ کر گھٹنے میری پسلیوں میں مارتا۔ ’ون‘ میں کہتا، اور ایک دفعہ آگے بڑھتا۔ ٹو، تھری۔ فِفٹی تک میں اکثر گنتی کرتا تھا۔ اسی لئے کچّی جماعت داخل ہونے سے پہلے ہی مجھے ہنڈرڈ تک گنتی آ گئی اور آج تک نہیں بُھولی۔ مگر بے بے سمجھتی ہے مجھے گنتیاں اور اے بی سیئں اس لئے آ گیئں کہ میں جینئس تھا۔

    دفتر کے دروازے پر دستک بوئی، میں کرسی پہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا، کم ان، میں نے کہا۔

    عنابی چادر میں لپٹی ایک لڑکی اندر آئی، اس کے کانپتے ہاتھوں میں مسٹرڈ کاٹن کا ایک ٹکڑا تھا، سر، ایپرن کی ہیم میں بکرم رکھنا ہے یا نہیں؟

    آنٹی نائلہ نے ڈیزائین شیٹ نہیں دی آپ کو؟ میں آنٹی کی میز کی طرف گیا دیکھنے، کوئی نہیں۔

    سوری سر، آج میرا پہلا دن ہے، شیٹ کی سمجھ نہیں آئی۔

    نو پرابلم، مجھے دکھایۓ، میں نے ہاتھ آگے کیا، اس نے کپڑا آگے بڑھا دیا۔ نہیں، شیٹ دکھائیے، میں نے کہا۔ وہ بھاگ کر کمرے سے باہر چلی گئی۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بھاگتی واپس آ گئی۔

    یہ لیجیۓ شیٹ، اس نے آگے بڑھ کر مجھے کاغذ پکڑایا۔

    پکڑتے ہوئے مجھے جیسے مہندی کی رنگین مہک آئی، میرا دل کیا مہندی لگے ہاتھ دیکھوں، مگر میں نے اپنا دھیان شیٹ کی طرف پھیر دیا۔ یس، بکرم رکھنا ہے، میں شیٹ میز پہ رکھ کر پرے ہو گیا۔

    تھینک یو۔ سر، پلیز آنٹی کو نہ بتآئے گا، وہ کاغذ اٹھا کر باہر نکل گئی۔

    آنٹی کو نہ بتآئے گا؟ کمال ہے، باس کون ہے یہاں؟ میں ہنس پڑا۔ باس آنٹی ہی کو ہونا چاہیۓ، اتنے جنجال وہی سنبھال سکتی ہے۔ میرے اور بہت مسائل ہیں۔ میں کمپیوٹر پر سیلز میٹنگ کی فائل نکال کر دیکھنے لگا۔

    مسائل تو ہر کسی کے ہوتے ہیں، مگر میرے دو ایسے مسآئل ہیں جن کے بوجھ تلے میرا بجپن گزرا، لڑکپن گزرا، اور اب جوانی گزر

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1