Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

Nagufta / ناگفتہ
Nagufta / ناگفتہ
Nagufta / ناگفتہ
Ebook157 pages1 hour

Nagufta / ناگفتہ

Rating: 1 out of 5 stars

1/5

()

Read preview

About this ebook

انسان ظاہر میں تو صرف ایک چہرہ رکھتا ہے لیکن اکسر اس کا باطن کئی چہروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات باطن میں چھپا یہ چہرہ اس کے ظاہری چہرے سے بلکلل مختلف اور حيران کن صورت ميں سامنے آتا ہے۔ انہی چہروں پر مشتمل 'ناگفتہ' افسانوں اور شاعری کا ايک ایسا مجموعہ ہے جو انسان کے اس چھپے چہرے کو مختلف حالات اور واقعات میں ظاہر کرتا ہے۔ جس میں دھوکا، وفا، غداری، احسان فراموشی، بھروسہ، قربانی اور بے لوث جذبہ جيسی انسانی خصوصیات شامل ہیں۔

LanguageUrdu
Release dateFeb 10, 2021
ISBN9781005057084
Nagufta / ناگفتہ
Author

Zindan / زندان

زندان، کا اصل نام ́عادل محمود ́ ہے لیکن وہ اپنی تحریروں کو قلمی نام ́زندان ́ کے ساتھ پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے، لیکن ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ میں گزرا۔ ان کی دلچسپی کا بنیادی شعبہ اردو افسانہ لکھنا ہے۔ ان کی پہلی کتاب 'ناگفتہ' ٢٠١٨ میں، اور دوسری کتاب ́فریب ́ ٢٠٢١ میں شائع ہوئی- ان کی دوسری کتاب ́فریب ́ کے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ پرفیڈیوس کے نام سے کئیںڈل، ایمیزون پرشائع ہو چکا ہے۔ ان کی تیسری کتاب دہر ٢٠٢٤ میں منظر عام پر آ چکی ہے

Read more from Zindan / زندان

Related to Nagufta / ناگفتہ

Related ebooks

Reviews for Nagufta / ناگفتہ

Rating: 1 out of 5 stars
1/5

1 rating0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    Nagufta / ناگفتہ - Zindan / زندان

    حیرت زدہ

    میں تیزی کے ساتھ قدم بڑھاتا ہوا پلیٹ فارم پر کھڑی گاڑی کی طرف چل رہا تھا ۔گاڑی کے چلنے میں چند ہی منٹ باقی تھے اور میں آج ہی کراچی سے پشاور روانہ ہونا چاہتا تھا۔سفر کچھ طویل تھا مگر مجھے یہ اطمینان تھا کہ میری فرسٹ کلاس میں ریزرویشن ہے ۔لہٰذا وہ دشواری مجھے نہیں اٹھانا پڑے گی جو عموما سیکنڈ کلاس میں سفر کرنے والےمسافر اٹھاتے ہیں۔میرے پاس صرف ایک بریف کیس تھا جس میں چند ضروری کاغذات تھے, اس لئے مجھے پلیٹ فارم پرتھوڑا تیز چلنے میں کوئی خاص دقّت نہیں ہوئی۔

    چند منٹ بعدمیں فرسٹ کلاس والے ڈبّے میں داخل ہو چکا تھا۔ میں نےایک اطمینان بھری گہری سانس لیتے ہوۓ اپنے آپ سے کہا''چلو شکر ہے گاڑی چھوٹنے سے بال بال بچے۔'' اگلے ہی لمحے میں نے ڈبے کے اندر بنے کیبنز کے اوپر لکھے گئے نمبروں کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ میرا کیبن نمبر ۸ تھا۔ جیسے ہی میں کیبن نمبر ۸ کے قریب پہنچا تو دروازے پر لکھا ۸ کا ہندسہ دیکھ کر میں مسکرایا اور اطمینان کے ساتھ دروازہ کھولا۔

    جیسے ہی میں ا ندر داخل ہوا تو میرےسامنے بائیں جانب کھڑکی کے پاس ایک شخص بیٹھا نظرآیا ۔ وہ عمر میں تقریباً ۵۵ سال کے قریب اور دیکھنے میں معقول انسان نظر آتا تھا ۔معقول اس لئے کہ لباس سے وہ کافی نفیس دکھائی دیتا تھا۔ اس نے کالے رنگ کی پتلون اورکالے ہی رنگ کا کوٹ پہن رکھا تھا اور گلے میں لال رنگ کا اسکارف جو اس کی ہلکے پیلے رنگ کی شرٹ سے بلکل کنٹراسٹ کرتا تھا ۔ اسکی نفیس شخصیت کا اندازہ مجھے اگلے ہی لمحےا سکی گفتگو سے بھی ہوگیا ،جس طرح اس نے مجھے اندر آتے ہی مسکرا کر انگریزی میں کہا ''ہیلو! گڈ ایوننگ۔''

    میں نے بھی جواب میں اسے ' Good Evening ' کہا اور مسکراتے ہوئے ہم نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا۔میں نے اپنے بریف کیس کو ایک طرف رکھ دیا اور اس شخص کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔  

    اس نے اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سگریٹ کی ڈبی سے ایک سگریٹ نکال کر سگریٹ ہولڈر میں لگایا اور پھر لائٹر سے جیسے ہی ا س کو جلانے لگا ، ایک لمحے کے لئے رکا اور میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا ' Excuse me,If you don't ...'

    میں نے اس کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی جواب دیا ' Sure, Please '  

    اس نے میری طرف سگریٹ کی ڈبی کو بڑھایا '' کیا آپ سگریٹ نوش فرمائیں گے؟''

    میں نے کہا ’نہیں !آپ کا شکریہ۔‘ اس نے مسکراتے ہوئے سگریٹ کی ڈبی کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا اور سگریٹ جلا کر اس کا کش لگایا۔

    دوسرے کش کو لگاتے ہی اس نے کہا ’میرا نام مجیب ہے۔لوگ مجھے سیٹھ مجیب کے نام سے جانتے ہیں۔‘ 

    میں نے جواب میں کہا ’ میرا نام احمد ہے۔' 

    سیٹھ مجیب:’آپ کرتے کیا ہیں ؟‘

    میں نے جواب دیا " میں پشاور میں ایک دوا بنانے والی کمپنی میں بطور منیجرکام کرتا ہوں اور یہاں کراچی میں ایک بزنس میٹنگ کے سلسلے میں آیا تھا۔'' 

    اپنے اس مختصر سے تعارف کے بعد میرے پوچھنے پر اس نے بتایا ''میرا گولڈ کا کاروبار ہے پشاور ،کراچی اور چند دوسرے بڑے شہروں میں ۔ اسی سلسلے میں مجھے اکثر مختلف شہروں کا سفر کرنا پڑتا ہے''۔

    وہ اپنے رکھ رکھاؤ سے واقعی سیٹھ لگتا بھی تھا ۔ اس کی قیمتی گھڑی،سونے کی انگوٹھیاں اور گلے میں سونے کا قیمتی ہار اس کے رئیس ہونے کی واضح نشاندہی کر رہے تھے۔

    گاڑی اپنے سفر کی طرف رواں دواں تھی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھے۔ہمارے کیبن کا دروازہ کھلا ہی تھا۔اچانک دروازے کے سامنے سے ایک جوڑا گزرا۔دونوں نوجوان تھے۔لڑکا پتلون اور کمیزپہنے ہوئے تھا اور لڑکی سفید ساڑھی میں ملبوس ،کھلے بالوں کے ساتھ،ہاتھ اور گلے میں سفید رنگ کی artificial jewelry پہنے ہوئے تھی۔لڑکے کا بازو لڑکی کی کمر کے گرد تھا ا ور لڑکی یہ کہتے ہوئے اس لڑکے کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی ''کاش ہماری ساری زندگی کا سفر بھی ایسا ہی خوشگوار گزرے جیسا ہمارا یہ ٹرین کا سفر ہے۔''اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

    جیسے ہی وہ دونوں تھوڑا آگے گزر گئے، سیٹھ مجیب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا oh my God " ''

    میں نے پوچھا ’کیا ہوا؟‘ 

    اس نے جوا ب دیا " ساڑھے نو بج چکے ہیں اور Dinning carوالے دس بجے ڈیوٹی آف کر جاتے ہیں۔ لہذا ہمیں Dinnerکر لینا چاہیے۔'' 

    میں نے جواب دیا yes,you are right."''یہ کہتے ہوۓ ہم دونوں اٹھے اور Dinning car کی طرف چل پڑے۔اگلا کیبن نمبر ۹ تھا اور اس کے بعد Dinning car۔کیبن ۹ کے پاس سےگزرتےہوۓ جیسے ہی ہماری نظر کیبن ۹ کے دروازے پر پڑی تو دروازہ کھلا تھا اور کیبن اندر سے خالی تھا۔ 

    کیبن کے کھلے دروازے کو دیکھتے ہی سیٹھ مجیب نے کہا ''bloody idiots ۔۔۔ یہ لوگ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرتے۔'' یہ کہتے ہوۓ سیٹھ مجیب نے کیبن کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا۔

    میں نے حیران ہو کر پوچھا " آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں۔جس کا کیبن ہے وہ جانے کے دروازہ کھلا رکھنا ہے یا بند۔'' 

    سیٹھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا جناب اسے بھی اپنا ہی کیبن سمجھیے۔

    میں نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا ’ آپ کا مطلب کیا ہے؟‘ 

    اس نے مسکراتے ہوۓ کہا '' دراصل ۹ نمبر کیبن بھی میں نے ہی بک کیا ہوا ہے اور ۸ نمبر کیبن کی ایک سیٹ بھی جو آپ کے ساتھ ہے۔دراصل سفر میں مجھے کسی دوسرے شخص کی موجودگی میں نیند ٹھیک طرح سے نہیں آتی۔ لہٰذا میں جب بھی سفر کرتا ہوں تو ایک پورا کیبن صرف اپنے سونے کے لئے بک کرواتا ہوں اور دوسرے کیبن میں ایک دوسری سیٹ تاکہ سفر میں آپ جیسے اچھے اور نفیس انسان سے گپ شپ بھی ہوتی رہے اور سفر بھی مزے سے گزرجاۓ ۔''

    میں یہ جواب سن کر حیران تو ہوا کہ آخر اتنا امیر آدمی کراچی سے پشاور تک اتنے لمبے سفر کے لئے جہاز میں سفر کیوں نہیں کرتا۔مگر میں چپ رہا، کیونکہ اس وقت میں نے یہ سوال پوچھتے ہوئے تھوڑی جھجک محسوس کی۔بہرحال میں نے مسکراتے ہوئے صرف اتنا کہا '' Good idea ''یہ کہتے ہوئے ہم دونوں Dinning car کی طرف بڑھ گئے۔

    ڈائینگ کار میں داخل ہوتے ہی میری نظر اچانک اس جوڑے پر پڑی جو چند منٹ پہلے ہی ہمارے کیبن کے دروازے کے سامنے سے گزرا تھا۔میں اور سیٹھ مجیب ان دونوں کے سامنے والی میز پر بیٹھ گئے اور waiterکو بلایا۔

    میں ابھی مینو کارڈ دیکھنے میں ہی مصروف تھا کہ سیٹھ مجیب نے

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1