Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

Dehar /دہر
Dehar /دہر
Dehar /دہر
Ebook181 pages1 hour

Dehar /دہر

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

دہر :(اافسانوی مجموعہ)

دہلیز

تبدیلی

پلیت

پل صراط

تانگے والی

پورماوتی کنواری ہی مری ہے

LanguageUrdu
Release dateMar 28, 2024
ISBN9798224177431
Dehar /دہر
Author

Zindan / زندان

زندان، کا اصل نام ́عادل محمود ́ ہے لیکن وہ اپنی تحریروں کو قلمی نام ́زندان ́ کے ساتھ پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے، لیکن ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ میں گزرا۔ ان کی دلچسپی کا بنیادی شعبہ اردو افسانہ لکھنا ہے۔ ان کی پہلی کتاب 'ناگفتہ' ٢٠١٨ میں، اور دوسری کتاب ́فریب ́ ٢٠٢١ میں شائع ہوئی- ان کی دوسری کتاب ́فریب ́ کے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ پرفیڈیوس کے نام سے کئیںڈل، ایمیزون پرشائع ہو چکا ہے۔ ان کی تیسری کتاب دہر ٢٠٢٤ میں منظر عام پر آ چکی ہے

Read more from Zindan / زندان

Related to Dehar /دہر

Related ebooks

Reviews for Dehar /دہر

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    Dehar /دہر - Zindan / زندان

    دہر

    (افسانے)

    از قلم

    زندان

    انتباہ

    اس کتاب میں پیش کئیے گئے خیالات ، کہانیاں ،کردار، محل وقوع اورالفاظ و مکالمے مکمل طور پر مصنف کے تخیلات اور فن کا نتیجہ ہیں۔ لہذا ، کسی بھی کردار، کہانی، انسان، جانور، تصویر یا کسی اور جاندار یابےجان چیز کے مطلق، یا کوئی اورملتی جلتی صورتحال کے ساتھ ان خیالات ، کہانیاں ،کردار، محل وقوع اور الفاظ و مکالمے میں سے کسی کی بھی مماثلت محض ایک اتفاق ہوگا۔ لہذا مصنف کی طرف سےکسی بھی قسم کی کوئی بھی ذمہ داری قبول نہیں کی جائے گی۔

    جملہ حقوق

    جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں۔

    اس کتاب کے کسی بھی حصے کی اشاعت ،فوٹو کاپی،ویڈیو یا تجارتی استعمال مصنف کی اجازت کے بغیرغیر قانونی ہے۔

    فہرست

    دہلیز

    تبدیلی

    پلیت

    پل صراط

    تانگے والی

    پورماوتی کنواری ہی مری ہے

    دہلیز

    شگفتہ بے تابی کے ساتھ اپنے موبائل فون کو بار بار دیکھ رہی تھی ۔ اس دوران کبھی وہ انٹرنیٹ کا سگنل دیکھتی تو کبھی یوٹیوب پر کوئی ویڈیو چلا کر اس بات کی تسلی کرتی کہ اس کے موبائل پر انٹرنیٹ ٹھیک طرح سے کام کر رہا ہے یا نہیں ۔ اس بےچینی کے عالم میں رات کے دو بج چکے تھے اور تمام گھر والے گہری نیند سو رہے تھے، مگر شگفتہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔

    انتظار کی اس کیفیت سے تنگ آ کر شگفتہ نے موبائل پر پیغام لکھ کر بھیجا

    ساجد ! کہاں ہو تم ؟ میں تھک گئی ہوں انتظار کرتے کرتے ۔ اگر میرے اس پیغام کے پندرہ منٹ تک تمہارا کوئی جواب مجھے موصول نہ ہوا تو پھر میں سو جاؤں گی اور پھر صبح کالج میں تم سے بات ہو گی۔

    مگر جیسے ہی شگفتہ نے پیغام ساجد کو بھیجا تو اس کے چند منٹ کے اندرہی شگفتہ کے موبائل پر ساجد کا تحریری پیغام موصول ہوامیں ابھی ابھی گھر واپس لوٹا ہوں ۔ دراصل پہلے رات دس بجے کے قریب امی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی ،لہٰذا انھیں ہسپتال لے کر جانا پڑا۔ اور جب امی کو ہسپتال سے خیر خریت کے ساتھ گھر واپس لے کر پہنچا، تو گھر کا انٹرنیٹ خراب ہو گیا اور میرے موبائل میں انٹرنیٹ کا بیلنس بھی ختم ہو چکا تھا ۔ لہٰذا میں دوبارہ گھر سے نکلا اور آدھی رات کو بڑی مشکل سے دوکان ڈھونڈھ کر موبائل میں انٹرنیٹ کا پیکج ڈلوایا اور اب کہیں جا کر تم سے رابطہ ممکن ہو سکا ہے۔

    ساجد کا یہ پیغام پڑھ کر شگفتہ کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور اس نے جواب لکھا چلو کوئی بات نہیں ۔ اب تم بھی سو جاؤ کیوں کہ رات کافی ہو چکی ہے، لہٰذا ہم صبح کالج میں ملیں گے۔

    ساجد نے یہ پڑھتے ہی فوراً جواب لکھایار تم بھی حد کرتی ہو ۔ تمھارے لئیے تو میں آدھی رات کو اتنی دور جا کر موبائل میں انٹرنیٹ کا پیکج ڈلوا کر لایا ہوں ،اور تم سونے کی بات کر رہی ہو ۔ تھوڑی دیر کے لئیے ویڈیو کال پر آ جاؤ ۔ تم جانتی تو ہو کہ تمہیں دیکھے بغیر مجھے نیند نہیں آئے گی۔

    شگفتہ : ساجد! پاگل مت بنو۔ اس وقت میں صرف لکھ کر ہی پیغام بھیج سکتی ہوں، لیکن بات نہیں کر سکتی ۔ ذرا وقت تو دیکھو ، رات کے تین بجنے والے ہیں اور گھر میں سب لوگ سو رہے ہیں ۔اگر فون پرمعمولی سی سرگوشی بھی ہوئی تو کوئی نہ کوئی ضرور جاگ جائے گا ۔ اور امی تو میرے ساتھ والے بستر پر ہی سو رہی ہیں۔

    ساجد : تم تھوڑی دیر کے لئیے چھت پر چلی جاؤ یا غسل خانے میں جا کر دروازہ بند کر لو۔

    شگفتہ : بےوقوفی والی باتیں مت کرو۔میرے لئیے رات کے اس پہر فون پر بات کرنا ناممکن ہے۔اب میں فون رکھ کر سونے لگی ہوں ۔ باقی باتیں صبح کالج میں کریں گے ۔گڈ نائٹ۔

    شگفتہ کا پیغام پڑھ کر ساجد نے بے قراری کے عالم میں شگفتہ کو یکے بعد دیگر کئی پیغام بھیجے

    ساجد : شگفتہ ایک منٹ کے لئیے میری بات تو سنو۔

    ساجد : اچھا چلو صرف ایک منٹ کے لئیے موبائل کا کیمرہ آن کر کے اپنا چہرہ دکھا دو ۔ اس کے بعد بےشک سو جانا۔

    ساجد : یار صرف تمہاری ایک جھلک دیکھنا چاہتا ہوں۔

    ساجد : کہاں ہو تم ؟ صرف ایک منٹ کے لئیے ہی تو کیمرہ پر آنے کو کہا ہے ۔ اس کے بعد بے شک فون بند کر دینا۔

    ساجد : تم جانتی ہو کہ تمہیں دیکھے اور تمہاری آواز سنے بغیر مجھے نیند نہیں آئے گی۔

    ساجد : یار آخر جواب تو دو ۔ تم جواب کیوں نہیں دے رہی؟

    مگر جب ان تمام پیغامات کو بھیجنے کے باوجود آدھ گھنٹے بعد تک بھی شگفتہ کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا ،تو ساجد سمجھ گیا کہ اب شگفتہ اس سے صبح کالج میں ہی بات کرے گی۔ لہٰذا ساجد نے موبائل فون کو چارجنگ پر لگایا اور پھر سونے کے لئیے لیٹ گیا۔

    صبح آٹھ بجے کا وقت تھا ۔ شگفتہ نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور کالج جانے کے لئیے تیار ہوئی ۔ جیسے ہی وہ گھر سے نکلنے لگی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ابا صحن میں ایک طرف دیوار میں ہتھوڑی سے کیل گاڑ رہے تھے اور ان کے قریب میز پر ایک بڑی تصویر رکھی ہوئی تھی۔

    شگفتہ نے تعجب سے پوچھا َ:ابا آپ یہ صبح صبح کیا کر رہے ہیں؟

    ابا (مسکراتے ہوئے) "بیٹی ! چند دن پہلے میں اپنے کچھ ضروری کاغذات ڈھونڈ رہا تھا ، ان کاغذات کے درمیان مجھے یہ پرانی تصویر پڑی ہوئی ملی جو تمہاری پانچویں سال گرہ کے موقع پر کھینچی گئی تھی ۔ اس تصویر میں جو پگڑی میں نے تمھارے سر پر رکھی ہوئی ہے ،یہ دراصل تمھارے دادا جان پہنا کرتے تھے ۔ پرانے وقت میں لوگ جب بھی گھر سے باہر جاتے تو سر پر پگڑی ضرور رکھا کرتے تھے ۔ یہ پگڑی ان کی آن اورغیرت کی علامت سمجھی جاتی تھی ۔ ہمارے دیہات میں تو آج بھی لوگ یہ پگڑی پہنتے ہیں ، مگر شہروں میں اس کا رواج اب بلکل ختم ہو چکا ہے۔

    بس تمہاری سال گرہ کے موقع پر میں نے یونہی مذاق میں جب یہ پگڑی تمھارے سر پر رکھی تو تمھارے ماموں نے اسی لمحہ یہ تصویر کھینچ لی ۔ دیکھو کتنی خوبصورت تصویر ہے۔ لہٰذا جب مجھے یہ تصویر اپنے پرانے کاغذات میں سے ملی تو میں نے محلے کے فوٹوگرافر کی دوکان پر اسے بڑا کرنے کے لیئے دے دیا تھا اور کل شام کو ہی اسے فوٹوگرافر کی دکان سے واپس لے کر آیا ہوں ۔ لہٰذا سوچا کہ اسے آج ہی کہیں مناسب جگہ پر ٹانگ دوں ورنہ پڑے پڑے یہ خراب ہوجائے گی ۔ بیٹی کچھ تصویریں ہمارے لئیے اہم اس لئیے ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے ساتھ ہماری بہت سی یادیں اور جذبات وابستہ ہوتے ہیں"۔

    شگفتہ کے ابا انتہائی چاہت اور جذبات کے ساتھ یہ سب کہہ رہے تھے۔ مگر شگفتہ کو اس تصویر یا اپنے ابا کی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، کیوں کہ شگفتہ کا دھیان اپنے موبائل پر آنے والے ساجد کے تحریری پیغامات کی طرف تھا جن کا جواب وہ یکے بعد دیگر لکھتی چلی جا رہی تھی۔ لہٰذا اپنے ابا کی بات ختم ہوتے ہی شگفتہ نے ایک سرسری نظر اس تصویر پر ڈالی اور پھر گھر سے باہر چلی گئی۔

    ساجد بےقراری کے ساتھ کالج کی کینٹین میں بیٹھا شگفتہ کا انتظار کر رہا تھا ۔ جب کچھ دیر بعد ساجد کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور شگفتہ کینٹین میں داخل ہوئی تو اس کے بعد دونوں نے چائے منگوائی اور جی بھر کر باتیں کرنے لگ گئے۔

    چائے پیتے پیتے شگفتہ نے کہا : ساجد آخر ایسا کب تک چلے گا؟

    ساجد : کیا مطلب ہے تمہارا، میں سمجھا نہیں؟

    شگفتہ : ہماری ان ملاقاتوں کا سلسلہ اور کیا ؟ فی الحال تو ہم دونوں آسانی سے مل لیتے ہیں، مگر کچھ ہفتوں بعد کالج کی پڑھائی ختم ہو جائے گی اور ہم کالج سے فارغ ہو جائیں گے ، پھر اس وقت میں کیا بہانہ کر کے گھر سے نکلا کروں گی ؟ تب ہمارا ملنا بہت مشکل ہو جائے گا یا شاید نہ ممکن بھی۔

    ساجد : بات تو تمہاری بلکل ٹھیک ہے ۔ کالج کے بعد ہمارا اس طرح ملنا واقعی مشکل ہو گا۔

    شگفتہ : تو پھر اس مشکل کا کوئی حل سوچو؟

    ساجد : یار ! حل تو ایک ہی ہے۔

    شگفتہ : وہ کیا؟

    ساجد : شادی۔

    شگفتہ : مگر یہ ممکن کیسے ہو گا ؟ تم جانتے ہو کہ میرے گھر والے اپنی ذات اور مسلک سے باہر کبھی بھی میری شادی نہیں کریں گے۔ میری سمجھ میں یہ بات آج تک نہیں آئی کہ یہ رسمیں ، رواج اور ذات پات کی اونچ نیچ ہم انسانوں نے کیوں بنا رکھی ہے؟ آخر ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر کیا فتح کرنا چاہتے ہیں ؟

    ساجد : یار ! زمانے کی بات چھوڑو ، ہمیں زمانے سے کیا لینا دینا ۔ تم یہ سوچو کہ ہم اپنی اس مشکل کو کیسے حل کر سکتے ہیں؟

    شگفتہ : ساجد ! میں نے اپنی امی سے سرسری بات کر کےدیکھی تھی ۔مگر امی نے مجھے اسی وقت ڈانتے ہوئے کہا کہ اس گھر میں دوبارہ یہ بات کبھی بھول کر بھی نہ کرنا، خاص کر اپنے ابا کے سامنے۔

    ساجد : تم بھی حد کرتی ہو ۔ ایسی بات بھلا سرسری انداز میں بھی کبھی کی جاتی ہے۔

    شگفتہ : تو پھر تمھارے خیال میں کیسے کی جانی چاھئیے ؟

    ساجد : تم ایک دو دن میں موقع ملتے ہی اپنے ماں باپ سے باقاعدہ سنجیدگی کے ساتھ بات کرو اور انھیں ہماری شادی کے لئیے مائیل کرنے کی کوشش کرو ۔ آخر وہ تمھارے ماں باپ ہیں ، کہیں تمہیں کھا تو نہیں جائیں گے نہ۔

    شگفتہ یہ سن کر چند لمحوں کے لئیے سوچ میں پڑھ گئی ۔ اس طرح شگفتہ کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر ساجد نے کہا" اگر تم کہو تو میں

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1