Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)
Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)
Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)
Ebook179 pages1 hour

Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

Tariq Ali is working as a lecturer in the English department of KFUEIT. He is a good writer and always tries to portray a symphony of relation, sadness, and love. This novel is such an effort and hopes it would touch the innermost feelings of the readers.

LanguageUrdu
PublisherTariq Ali
Release dateAug 20, 2019
ISBN9780463351956
Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)

Related to Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)

Related ebooks

Reviews for Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel)

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    Waqat-e-Rukhsat (Urdu Novel) - Tariq Ali

    وقت رخصت

    طارق علی

    Copyright 2019 Tariq Ali

    Published by Tariq Ali at Smashwords

    Smashwords Edition License Notes

    This ebook is licensed for your personal enjoyment only. This ebook may not be re-sold or given away to other people. If you would like to share this book with another person, please purchase an additional copy for each recipient. If you’re reading this book and did not purchase it, or it was not purchased for your enjoyment only, then please return to Smashwords.com or your favorite retailer and purchase your own copy. Thank you for respecting the hard work of this author.

    انتساب

    جن کی محبتیں میرے حصے میں آئیں ان کے نام

    ساریہ نے چولہابند کرتے ہوئے کچن کے دروازے کی طرف دیکھا اورپھرتیزی سے کچن کی کھڑکی کی طرف دیکھا۔ ایک گہری مسکراہٹ اُسکے ہونٹوں پراُبھری اورآنکھوں میں چمک سی پیدا ہوگئی۔ اُس نے جلدی جلدی برتن سمیٹے اورایک دفعہ پھر دروازے کی طرف دیکھا۔ وہاں کوئی نہ تھا اورنہ ہی کسی کے آنے کی کوئی آہٹ تھی۔ وہ ہاتھ ملتے ہوئے کھڑکی کی طرف آئی اوراُسے کھول دیا۔ بارش کی پھوار اُس کے چہرے پرپڑی۔

    اتنا حسین موسم اوراتنا ظالم زمانہ! اُس نے سوچتے ہوئے لان کے درمیان میں فٹ بال کھیلتے عالیہ اورفرحان کو دیکھا۔ اُسے فوراً امی ابو کا گھر یادآگیا۔ جہاں اُس نے کبھی بھی بارش کے معاملے میں کمپرومائز نہیں کیاتھا۔ وہ اِس خوب صورت موسم میں دنیا کاہرکام پیچھے چھوڑ دیتی تھی۔ اِس گھرمیں اُس کوبظاہرکوئی رکاوٹ تونہ تھی لیکن امی کے سمجھائے ہوئے ہزاروں لیکچرزبھی تواُسے نہ بھولے تھے جس میں اپنی من مانی کرنے پربھرپوراندازسے روکاگیا تھا۔

    اُس کاخیال تھا کہ سُسرال ایک بہت ہی انوکھی شے ہوتی ہے جسے بھاری بھرکم جہیز سمیت ایک نوکرانی درکارہوتی ہے۔ اپنا حکم چلانے والی ساس، چڑیل جیسی جیٹھانی اوربہت ہی پیاراکرنے والا شوہر …… ڈھیروں اندیشے اوربے شمارخواہشیں لیکروہ حُسین وِلا میں بہو کی حیثیت سے داخل ہوئی تھی لیکن یہاں سب کچھ اُس کی توقعات کے برعکس تھا۔

    اُس کی ساس، سائرہ بیگم بہت ہی نفیس خاتون تھیں اورجیٹھانی بھی بہت خوش اخلاق تھی۔ حسین صاحب سے اُس کی تفصیلی ملاقات نہ ہوپائی تھی کیونکہ وہ دبئی سے صرف ایک ہفتے کی چھٹی لیکرآئے تھے شادی کے سلسلے میں۔ سب بہت ہی پیارکرنے والے تھے سوائے اُس ایک شخص کے جس کے نام سے منسوب ہوکروہ یہاں آئی تھی۔ ساریہ پُراُمید تھی کیونکہ ابھی شادی کو صرف پندرہ دن ہی توگزرے تھے اوراب اُس کوتمام عُمران ہی رشتوں کوجانچنا اورپرکھنا تھا۔

    بادلوں کے گرجنے کی آوازپراُس نے آسمان کی طر ف دیکھا۔ گرجتی چمکتی بارش اُس کے اندردبے ارمانوں کوجگارہی تھی۔ وہ بھی اردگرد سے لاتعلق ہوکرعالیہ اورفرحان کی طرح اِس بارش میں نہانا چاہتی تھی۔ ٹھہرے ہوئی پانی میں زورزورسے اُچھلنا چاہتی تھی۔ وہ ترستی نظروں سے کافی دیراِس حسین منظرکودیکھتی رہی لیکن آخرکب تک بارش تو اُس کی بہترین دوست تھی سووہ کیسے اُس سے دور رہ سکتی تھی۔ اُس کاضبط بُری طرح سے ٹوٹ رہاتھا۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے کچن سے باہرآگئی اورکبوترکی طرح آنکھیں موندے لان کی طرف چل پڑی۔ گھرمیں مکمل سناٹا تھا۔ آج اُسے احساس ہوا کہ اِس گھرکے مکین اپنے سینوں میں مردہ دِل لیے پھررہے ہیں ورنہ اُس کے میکے میں تواِس موسم میں جشن کاسماں ہواکرتا تھا۔ لان میں داخل ہوکروہ کھلکھلاکرہنس پڑی جیسے اُس کواصل خوشی کااحساس آج ہوا ہو۔ وہ تقریباً بھاگتی ہوئی عالیہ اورفرحان کے پاس آگئی۔ میں خواہ مخواہ میں اتنا ڈررہی تھی، بھلا مجھے کون روکے گا بارش میں نہانے سے۔ عالیہ اورفرحان اُس کودیکھ کرمزیدجوش میں آگئے۔ ساریہ نے آنکھیں موندکراپنا چہرہ آسمان کی طرف کرلیا اوربارش کو اپنا چہرہ بھگونے دیا۔

    ٭٭٭

    فاخرکوکمپیوٹرکے سامنے بیٹھے ہوئے ایک گھنٹہ ہونے کوتھا لیکن وہ کوئی بھی کام نہیں کرپارہاتھا۔ کام کرنے کے لیے دماغ کاحاضرہونا اوردِل کامطمئن ہونا ضروری ہوتا ہے لیکن اُسے ان دونوں چیزوں کو کھوئے ہوئے ایک عرصہ ہونے والاتھا۔ ایک تویہ بارش …… بن بلائے مہمان کی طرح نہ جانے کہاں سے آجاتی ہے۔ بغیرکسی جواز کے کیوں آجاتی ہے اُس کی زندگی میں اِس بارش کوسہنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا اس سے جڑی اُن تلخ یادوں کوجن سے وہ چھٹکاراپانے کے ہزاروں جتن کرچکاتھا۔ وہ چاہتاتھا کہ ایک رات گہری نیندسوجائے اوردوبارہ بیدارہونے پروہ اپنے ماضی کوبھول چکاہو۔ ہررات سونے سے پہلے وہ یہی سوچتاتھا کہ کل وہ ایک نئی زندگی کی شروعات کرے گالیکن یہ اتنا آسان نہ تھا۔ اُسے اپنے ماضی کے کرب کو خودہی سہناتھا…… اکیلے ……

    وہ ایک دفعہ پھراپنی دنیاسے بے خبرہوچکاتھا۔ سنہری بال اُس کے اردگر منڈلا رہے تھے۔ مجھے وہ لوگ بالکل اچھے نہیں لگتے جو بارش کے موسم میں بندکمرے میں بیٹھے رہیں ۔ ماضی میں کسی کادہرایاہواجملہ اُس کے کانوں میں گونجا۔ فاخرجھرجھری لیتے ہوئے فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ جانتا تھا کہ اِس بارش کے ختم ہونے کاانتظارکرنا بے کارہے۔ وہ ٹیرس کے دروازے کی طرف آیاجہاں کے گلاس ڈورسے وہ بارش کومحسوس کرسکتاتھا۔

    فاخرمجھے بالکل اچھا نہیں لگتاتمہارایوں ٹیرس پرکھڑے ہوکرمجھے بارش کو انجوائے کرتے دیکھنا۔ اگرتم میرے ساتھ آؤ توہم زیادہ انجوائے کرسکتے ہیں۔ کم آن فاخر …… چلوآج اِس بارش سے باتیں کرتے ہیں ۔ اُس کے کانوں میں ایک بارپھروہی آواز اُبھری۔ وہ دروازہ کھول کرٹیرس میں داخل ہوگیا۔ بارش اپنے عروج پرتھی اورشام تک شاید برستے ہی رہناتھا۔ اُس کی نظرلان پرپڑی جہاں اُس نے عالیہ اورفرحان کے ساتھ ایک تیسراوجود بھی دیکھا۔ وہ حیران ہوا کیونکہ نادیہ بھابھی کوکبھی بھی اُس نے بارش میں نہاتے نہ دیکھاتھا پھریہ کون تھی؟ چند لمحے فاخراُس کی بیٹھ کو دیکھتارہا پھراُسے ساریہ کاکھلکھلاتاہوا چہرہ نظرآیا۔ اُس نے فوراً اپنی نظروں کازاویہ بدلااورحیران ہواکہ وہ ساریہ کو کیوں نہ پہچان پایا۔ وہ پچھلے پندرہ دنوں سے اُس کے ساتھ رہ رہی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ فاخراُسے کسی اجنبی کی طرح ٹریٹ کررہا تھا۔ ساریہ نے اب تک کوئی شکایت نہ کی تھی توفاخرکوبھی اطمینان سا ہوگیاتھا۔

    ساریہ حسین صاحب کے دوست کی بیٹی تھی۔ وہ ساریہ کو شادی سے پہلے نہیں جانتاتھا اوراب بھی کہاں جانتاتھا۔ ساریہ اُس کے لیے ایک فارمیلٹی تھی جس کو بس نبھاناتھا اورساریہ کے لیے وہ خودکیاتھا، یہ فاخرکوجاننے کی ضرورت نہ تھی۔ اُس کاواسطہ صرف سنہری بالوں سے رہاتھا اوراُسی پرختم ہوگیا۔ اُس کی زندگی میں آنے والی کوئی بھی دوسری لڑکی کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔

    عالیہ اورفرحان کی ہنستی کھیلتی آوازوں کے تعاقب میں اُس کی نظریں دوبارہ ساریہ پرجاپڑیں اورچند لمحوں کے لیے وہ ساکت رہ گیا۔ ساریہ اپنے بازو ہوا میں پھیلائے، چہرہ آسمان کی طرف کیے گول گول چکرکاٹ رہی تھی۔ ساریہ کے چہرے پروہی مسکراہٹ اورخوشی تھی جو…… فاخرکے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی وہ فوراً کمرے میں واپس آگیا۔بارش کی آواز مزید اُسے ڈسٹرب کرنے لگی تھی۔ وہ بس اِس موسم اورآوازسے فرارچاہتاتھا جو اُس کے لیے ممکن نہ تھا۔ اُس نے گاڑی کی چابیوں کی تلاش میں نظریں اِدھراُدھردوڑائیں۔ اُسے بس اِس درد سے نکلناتھا جو کم ہونے کی بجائے بڑھتاہی جارہا تھا۔

    ٭٭٭

    سائرہ بیگم نے کچن کی کھڑکی سے لان میں جھانکا توساریہ کو یوں بچوں کی طرح نہاتا دیکھ کر مسکرائیں۔ وہ جانتی تھیں کہ ساریہ کابچپنا ابھی ختم نہیں ہواجوختم ہونابھی نہیں چاہیے تھا لیکن وہ فاخرکے معاملے میں ساریہ کو کسی اورہی روپ میں دیکھنا چاہتی تھیں۔ فاخر کو بہت مشکلوں سے اِس شادی کے لیے آمادہ کیاگیاتھا۔ اُس کے انکار کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آرہی تھی۔ سائرہ بیگم نے اُس سے کئی دفعہ پوچھا لیکن وہ ہردفعہ ٹال جاتاتھا۔ کسی اورلڑکی کامعاملہ ہے؟ فاخرمجھے بتاؤ …… تمہاری پسند ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے، تم ایک دفعہ نام تو لو …… شادی سے پہلے انہوں نے فاخرسے بات کی۔

    ماما اگرایسی کوئی بات ہوتی تومیں ضروربتاتا آپ کو ۔ فاخرنے بے پرواہی سے جواب دیا۔ تم ایسے تونہیں تھے فاخر …… تم بہت بدل گئے ہو۔ جب سے میں دوبئی سے واپس آئی ہوں تب سے تم عجیب سے بن گئے ہو۔ جواب میں فاخرمسکرایا۔ آپ خود ہی چاہتی تھیں کہ میں پریکٹیکل ہوکرسوچنا شروع کردوں ۔ لیکن میں نے یہ کب کہاتھا کہ تم اپنی فیملی سے ہی کٹ کررہ جاؤ آپ خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہیں۔ میں یہیں آپ لوگوں کے ساتھ توہوں پھر…… نہیں ہوتم ہمارے ساتھ۔ تمہارادل اوردماغ یہاں پرنہیں ہے۔ فاخرچپ ہوگیا۔ سائرہ بیگم آج تک اُس کرب کو نہ بھولی تھیں جو اُس وقت اُنھوں نے فاخرکے چہرے پردیکھاتھا۔

    اُس کے بعد سائرہ بیگم فاخرکے لیے کوئی ایسی لڑکی چاہتی تھیں جو فاخرکے دل میں نہ صرف جھانک سکے بلکہ اُس کے درد میں برابرکی شریک ہوسکے۔

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1