Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

آقائے جنات: Master of the Jinn
آقائے جنات: Master of the Jinn
آقائے جنات: Master of the Jinn
Ebook378 pages2 hours

آقائے جنات: Master of the Jinn

Rating: 3.5 out of 5 stars

3.5/5

()

Read preview

About this ebook

دل کی راہ پر لکھی گئی خوبصورت داستان، جس میں موجودہ دور کے صوفی مرشد اپنے سات ساتھیوں کو ایک دشوار مہم پر قدیم خزانے کی تلاش میں بھیجتے ہیں جو شاہ سلیمانؑ کی انگوٹھی پر مشتمل ہے۔ اس شہرہ آفاق انگوٹھی کے بارے مشہور ہے کہ اس کی مدد سے جنات، جو کہ بھڑکتی آگ سے بنی مخلوقات ہیں، پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس انگوٹھی کی تلاش میں اِن لوگوں کو نہ صرف جنات کی حقیقت کا علم ہوتا ہے بلکہ انہیں محبت کے راستے اور خدا لازوال رحمت سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔

Here is a tale set on the Path of the Heart, a beautifully written mystical adventure wherein a modern-day Sufi Master sends seven companions on a perilous quest for the greatest treasure of the ancient world - King Solomon's ring. The legendary seal ring is said to control the Jinn, those terrifying demons of living fire, and in seeking it the companions discover not only the truth of the Jinn, but also the path of Love and the infinite mercy of God.

LanguageUrdu
Release dateFeb 23, 2016
ISBN9781310733543
آقائے جنات: Master of the Jinn
Author

Irving Karchmar

Irving Karchmar has been a writer and editor for many years, and a darvish of the Nimatullahi Sufi Order since 1992. He lives near New York City.

Related to آقائے جنات

Related ebooks

Reviews for آقائے جنات

Rating: 3.5 out of 5 stars
3.5/5

4 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    آقائے جنات - Irving Karchmar

    cover.jpg

    آقائے جنات

    ايک صوفي ناول

    از

    اورنگ کارچمر

    اردو ترجمہ

    محمد منصور (قيصراني)

    کاپي رائٹ اِرونگ کارچمر © 2015۔ جملہ حقوق محفوظ ہيں۔

    اس کتاب کا کوئي بھي حصہ مصنف کي پيشگي تحريري اجازت کے بغير برقي يا مشيني ذريعے سے نقل يا ايک جگہ سے دوسري جگہ منتقل نہيں کيا جا سکتا اور نہ ہي اسے محفوظ کر کے دوبارہ حاصل کيا جا سکتا ہے۔ تاہم تنقيدي مضامين اور تبصروں ميں مختصر اقتباسات کے استعمال پر يہ پابندي لاگو نہيں ہوتي۔

    مزيد تفصيل جاننے کے ليے مصنف سے رابطہ کريں:

    ترجمہ: محمد منصور (قيصراني)

    سر ورق ڈيزائن: ايلانا کوہن سپيتھ

    سر ورق تصوير: ناديہ اورلاوا

    [English Version of Copyright]

    Copyright © 2015 by Irving Karchmar. All rights reserved.

    No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or By any means, electronic or mechanical, including photocopying, recording, or by any information storage and retrieval system, without permission in writing from the author, except in the case of brief quotations embodied in critical articles and reviews.

    For information contact the author at:

    Irvingk1945@gmail.com

    http://www.masterofthejinn.com

    Translation by Muhammad Monsoor

    Cover design by Elana Kohn Spieth

    Cover illustration by Nadya Orlova

    Table of Contents

    انتساب

    پيش لفظ

    باب 1

    باب 2

    باب 3

    باب 4

    باب 5

    باب 6

    باب 7

    باب 8

    باب 9

    باب 10

    باب 11

    باب 12

    باب 13

    باب 14

    باب 15

    باب 16

    باب 17

    باب 18

    باب 19

    باب 20

    باب 21

    باب 22

    اختتاميہ

    انتساب

    ڈاکٹر جاويد نور بخش کے نام

    جو نعمت الہٰي صوفي سلسلے کے پير ہيں

    پيش لفظ

    انسان اپنے اعمال پر خود گواہ ہے

    قرآن 75:14

    اللہ کے نام سے، جو بے انتہا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

    ميرا نام اسحاق ہے اور مجھے يہ مسودہ لکھنے کي ذمہ داري سونپي گئي ہے، اپنے پير و مرشد کے حکم پر ميں اس سفر کي داستان لکھ رہا ہوں کہ جس سے تمام ساتھيوں ميں سے صرف ميں ہي اللہ کے کرم سے واپس لوٹا ہوں۔

    علي اور رامي اب نہيں رہے۔ ميں نے انہيں آگ ميں داخل ہوتے ديکھا تھا۔ دلوں کے راز جاننے والا جاسوس بھي شعلوں کي نذر ہوا۔ عبراني راہب اور اس کي بيٹي يا عظيم کپتان کا انجام بھي مجھے معلوم نہيں۔ حالانکہ ميں نے انہيں بہت کہا تھا کہ چلے جائيں، مگر وہ نہيں گئے۔

    مجھے ايک بات کا پورا يقين ہے۔ عفريت ابھي تک وہيں منتظر ہے۔

    بالزيبول، آقائے جنات

    ____________

    ہم انہيں نشانياں دکھاتے ہيں

    افلاک ميں بھي اور ان کے اپنے اندر بھي

    قرآن 41:53

    صحرا کے وسط ميں صبح کي پہلي روشني نمودار ہوتے وقت کالے بھنورے ريت سے نکل کر عبادت کرنے کے لئے ريتلے ٹيلے کي چوٹي کو بھاگے جاتے ہيں۔ چوٹي پر قطار در قطار کھڑے ہو کر سورج طلوع ہوتا ديکھتے اور جھک جاتے ہيں جيسے رکوع کي حالت ميں ہوں۔ ان کے پچھلے حصوں کا رخ سورج کي جانب ہو جاتا ہے اور شبنم کے قطرے ان کے سخت خول سے پھسلتے ہوئے ان کے بے تاب منہ ميں جا گرتے ہيں۔

    ميں اس منظر سے رو ديا۔ ميرے آخري آنسو۔

    ميں نے سوچا کہ يہ ہے غفور و رحيم کي جيتي جاگتي نشاني، دعا جو ہر صبح قبول ہو کر زندگي کو پروان چڑھاتي ہے۔ اگر ميرا دل عام انساني شکوک و شبہات سے پاک ہوتا تو اتنے ہي پختہ يقين سے بھرا ہوتا۔ انسان اپني عقل سے بعيد معجزوں کي بھي کوئي نہ کوئي عقلي توجيہہ تلاش کر ليتا ہے، کہ يہي اس کا معيار ہے۔

    آقا نے بالکل درست فرمايا تھا۔ ميرے شبہات اور خواہش سے انہيں بخوبي آگاہي تھي۔ آج سے بہت پہلے، ابتداء سے ہي انہوں نے اسے پوري طرح ديکھ ليا تھا۔

    ميں نے ساري رات پاني کے بغير ارک (صحرائي علاقہ) کا سفر کيا تھا جو تينيري صحراء ميں واقع ہے اور ميرا رخ شمال مغرب کو تھا۔ اميد تھي کہ ميں اس سڑک تک جا پہنچوں گا جو اگاديز کو جاتي ہے۔ ميري توانائي ختم ہونے والي تھي۔ سپيدہ سحر نمودار ہونے سے تين گھنٹے قبل ميري ہمت جواب دے گئي اور ميں ہلالي شکل کي ايک ريتلي پہاڑي کے پاس گرا اور برچھن (نيم دائرے والي ريتلي پہاڑي) ميں سرد صحرائي رات سے بچاؤ اور کچھ حدت پانے کے لئے گھس گيا۔

    ہوا تھم چکي تھي اور تاريک آسمان پر ستارے دمک رہے تھے۔ حيرت کي بات ہے کہ مجھے ڈر نہيں لگ رہا تھا حالانکہ ميں اچھي طرح سے جانتا تھا کہ ميں اگلا دن زندہ نہيں رہ پاؤں گا۔ ميرا ذہن پرسکون، صاف اور ان ستاروں کي مانند کہيں دور تھا۔ اب تک چھائي ہوئي مايوسي اور اداسي ميرے جسم کي نمي کي طرح ميرا ساتھ چھوڑ چکي تھيں۔ ميں کئي دنوں سے صحرا ميں بھٹک رہا تھا۔ شايد مجھے سکينہ کا کچھ حصہ عطا ہو گيا تھا۔ ايسا سکون جو صرف اللہ کے سامنے مکمل تابعداري کے بعد دل کو حاصل ہوتا ہے، يا شايد ميں سورج کي گرمي اور پياس کي شدت سے ديوانہ ہو گيا تھا۔ تاہم جب ميں نے آنکھيں بند کيں تو نہ تو مجھے سانپ بچھو کا کوئي ڈر تھا اور نہ ہي کسي اور جنگلي جانور يا موت کا انديشہ۔ خوابوں اور انديشوں سے خالي، مجھے علم بھي نہيں ہوا اور صبح ہو گئي۔

    جب سپيدہ سحر سے ميري آنکھ کھلي تو ايک لمحے کے لئے مجھے لگا کہ جيسے خواب ديکھ رہا ہوں۔ ميرے خوابيدہ شعور کو بمشکل احساس ہوا کہ ہزاروں کي تعداد ميں بھنورے ايک ساتھ اڑنے لگ گئے ہيں اور ميرے سامنے کالے دھبوں کي مانند دکھائي دے رہے ہيں۔ ميں نے کبھي ايسا منظر نہيں ديکھا تھا اور پہلي سوچ يہي آئي کہ يہ بھنورے مجھے کھانے آئے ہيں۔ خود کو بعجلت ريت سے نکال کر ميں رينگتے ہوئے اس جگہ سے دور ہوا۔ يا حيرت، انہيں ميري کوئي پروا ہي نہيں تھي بلکہ ان کا رخ ريتلے ٹيلوں کي چوٹيوں کي جانب تھا تاکہ وہ سورج کي طرف قطاريں بنا سکيں، جو قديم ترين مؤذن تھا۔

    ان کي عبادت کي قبوليت کو خولوں پر لڑھکتے شبنم کے قطروں کي صورت ديکھ کر ميں اپنے آنسو نہ روک سکا اور اپنے دکھتے جسم کو گھسيٹ کر جھکا اور اپنا ماتھا ريت پر ٹيک ديا۔

    ميرے يا رحمٰن کا ورد کرتے ہي توارگ ميرے پاس ايسے آن پہنچے جيسے بھونروں کي دعا فوري قبول ہوئي تھي۔ ان کي آمد آسيب کي مانند ہوئي تھي، آہستگي سے گھوڑوں پر سوار، تشکيک کا شکار کہ آيا ان کا سامنا کسي ديوانے سے ہوگا يا چھلاوے سے۔

    نمک کي تجارت کے پرانے راستے پر سفر کرتے ہوئے يہ لوگ حجوج نامي سيارے کي مدد سے راستے کا تعين کرتے تھے اور آج تک انہيں مجھ سے زيادہ عجيب چيز دکھائي نہيں دي تھي۔ جب انہوں نے اشاروں ميں مجھ سے بات کرنے کي کوشش کي تو سر ہلانے کے علاوہ ميں چپ ہي رہا۔ نيلا گندورا بھي پہننے کے باوجود مجھے تماشک زبان کے چند ہي الفاظ آتے تھے جو ان کي اپني زبان تھي ۔ جب انہيں کچھ سمجھ نہ آيا تو مجھے اپنے ساتھ اپنے کارواں کي جانب لے گئے۔

    وہاں پہنچ کر انہوں نے مجھے مشکيزے سے پاني گھونٹ گھونٹ کر کے پلايا اور ہر گھونٹ پر ميں اللہ کا شکر ادا کرتا رہا اور ہر سانس پر حمد کرتا رہا اور ہم ميرِ کارواں مودوگو کي واپسي کے منتظر رہے۔ آہستہ آہستہ ميري حالت بہتر ہونے لگي۔ تھوڑي دير بعد مودوگو بھي آن پہنچا۔ اس کي چوڑي تلوار لال نيام ميں لٹک رہي تھي اور کالي پگڑي نے اس کي آنکھوں کے سوا پورا سر چھپايا ہوا تھا۔ تاہم ميں نے اسے آنکھوں سے پہچان ليا۔ وہ افارنو تھا۔

    افارنو اور ميں پہلے بھي مل چکے تھے۔

    اسي طرح گھوڑے پر سوار افارنو چلايا۔ ميں تو تمہيں مردہ سمجھے بيٹھا تھا۔ باقي کہاں ہيں؟

    وہ فرانسيسي اچھي بول ليتا تھا ليکن اسے عربي محض ٹوٹي پھوٹي آتي تھي۔ تاہم جب ميں خاموش رہا تو وہ گھوڑے سے اترا اور پاس آ کر مجھے ديکھنے لگا۔ اسے کيا دکھائي ديا، ميں اس بارے محض اندازہ ہي لگا سکتا ہوں۔ پھر اس نے اس طرح آہستہ آہستہ وضاحت کي کہ جيسے کسي کُند ذہن کو سمجھا رہا ہو۔ اس نے بتايا کہ اس کے اونٹ تسميت کے نمک کے ڈلوں سے لدے ہوئے ہيں اور نائجر ميں دمرگو کو جا رہے ہيں تاکہ نمک کے بدلے باجرہ خريد سکيں۔ تاہم اس نے بادلِ نخواستہ ميرے ليے ايک بندہ اور دو اونٹ ساتھ کر ديئے تاکہ اس کے باپ کے پاس جا سکوں جو اس کے قبيلے کا سردار يعني امينوکل ہے۔

    اونٹ کا کجاوہ تيار کر کے بغير الوداع کہے ميں اور ميرا رہنما تينيري کو عبور کرنے نکلے۔ دو دن بعد ہم اگاديز ميں تھے جہاں ميں ابھي تک موجود ہوں۔ ميري ديکھ بھال کے ليے امير امينوکل کي بيوي اور ايک بوڑھي ملازمہ ہے اور ميرا قيام ان کے گھر کے ايک چھوٹے سے کمرے ميں ہے۔

    امينوکل کے بارے پتہ چلا کہ وہ کيل اہاگر کے تين قبائل کا مشترکہ سردار ہے اور اپنے قبيلے کا امرار يعني امير طبلِ جنگ بھي ہے جو توارگ جيسے جنگجو قبيلے ميں بہت اہم عہدہ ہے۔ پر اب وقت گذر چکا ہے۔ فرانسيسي قبضے کے بعد سے پرانے دور کا ہر طريقہ بدل گيا ہے۔

    اپنے اخلاق اور عادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امينوکل کو اپني چھوٹي سي سلطنت پر کتنا فخر ہے۔ بوڑھا ہونے کے باوجود اس کي مہمان نوازي اور آداب لاجواب ہيں اور اس کے وجود سے اس کے گھر کي شان بڑھ جاتي ہے۔

    وہ ميري چارپائي کے ساتھ کھڑے ہو کر سنجيدگي سے ميرا جائزہ ليتا رہا ليکن ميري حالت کے بارے کوئي سوال نہيں کيا اور خاموشي سے ميرا لکھا ہوا خط اٹھا ليا۔ شايد صحرا ميں بھٹکنے والا ميں پہلا احمق نہيں تھا يا شايد اسے کسي انعام کي توقع ہو، ليکن اس سے اس کے مہربان اور سخي ميزبان ہونے پر کوئي فرق نہيں پڑتا۔ شايد اس کے مدِنظر يہ عرب کہاوت رہي ہو کہ اچھائي کر کے بھول جاؤ، اللہ تمہيں اس کا بہترين صلہ دے گا۔

    تاہم وہ دو خواتين دن کو کمرے کے باہر دروازے پر بيٹھتي تھيں اور ان کي سرگوشيوں ميں چھپا غير يقيني پن اور تعلق صاف سنائي ديتا تھا کہ ان کے خيال ميں يا تو مجھ پر جادو ٹونا ہوا ہے يا پھر سورج کي تپش اور صحرائي مشکلات کا شکار ہو کر ميں ديوانہ ہو گيا ہوں۔

    ان کي حيرت بجا ہے۔

    ميرے قلم اور سفيد کاغذ سامنے رکھے ہيں۔ ميري توانائي بحال ہو چکي ہے ليکن خاموشي جاري ہے۔ صحرا ميں فرار ہونے سے لے کر اب تک ميں نے ايک لفظ بھي ادا نہيں کيا۔ تاہم اب مجھے منشي کي ذمہ داري نبھاني ہے ورنہ ميں خاموش ہي رہوں گا۔ اصل واقعات کے علاوہ اور کچھ بھي نہيں لکھوں گا۔

    اللہ ميري ياداشت کو واضح رکھے۔

    باب 1

    ميرا دل اب ہر شکل ميں ڈھلنے کے قابل ہو چکا ہے: اس ميں ہرنوں کے لئے گھاس بھي ہے اور عيسائي راہبوں کے لئے کليسا بھي اور بتوں کا بت کدہ بھي اور حُجاج کا کعبہ بھي اور توريت کي تختياں اور قرآن کي کتاب بھي۔ اگر ميں دينِ محبت کي پيروي کروں تو محبت مجھے جہاں لے جائے گي، وہي ميرا مذہب اور وہي ميرا ايمان ہوگا۔

    ترجمان الاشوق (خواہشوں کا ترجمان)

    محي الدين ابن العربي

    ہم اپنے مرشد کي رہائش گاہ ميں صبح جلدي اٹھتے تو اس وقت ستارے مدھم ہو رہے ہوتے تھے اور رات دن کي روشني ميں بدل رہي ہوتي تھي۔ شايد آپ جانتے ہوں؟ تب خاموشي دل کا مکان ہوتي ہے۔ روح کي تختي دھل کر صاف ہو چکي ہوتي ہے۔

    اس وقت ميں کھڑکي ميں بيٹھ کر باغ ، کھيتوں اور اس کے پيچھے شہر کو ديکھتا تھا۔ آہ، يروشلم۔ وسطِ گرما تھا اور ہوا ميں چنبيلي اور سمندر کي خوشبو پھيلي ہوئي تھي۔

    اس دن ميں نے صبح کو خوش آمديد کہتے مرغے کي بانگ سني تاہم يہ صبح ميري زندگي کي ديگر صبحوں سے بالکل فرق تھي۔ اچانک ايسے لگا جيسے پوري دنيا کے پرندے چہچہانے لگ گئے ہوں اور باغ ميں درختوں پر چڑيا، تليئر، طوطے، فاختہ اور سينکڑوں ديگر پرندے جن کے نام بھي مجھے پتہ نہيں، چہچہانے لگے اور ہر ايک کي آواز دوسرے سے الگ اور منفرد تھي۔

    ميں نے آج تک اتني بڑي تعداد اور اتنے مختلف اقسام کے پرندے ايک جگہ اکٹھے ہوتے نہيں ديکھے تھے۔ حتيٰ کہ ان ميں بلبليں بھي شامل تھيں حالانکہ بلبل ہميشہ ستاروں کي چھاؤں ميں چہچہاتي ہے۔ يہ بات ميرے وہم و گمان سے بھي باہر تھي کہ يہ سارے پرندے کيوں جمع ہوئے ليکن ميري خاموشي ختم ہو گئي۔ ميں چائے کا پاني گرم کرنے سيڑھيوں سے اترا۔

    کيتلي کو آگ پر چڑھا کر ميں نے باغ کي جانب والا دروازہ کھولا تاکہ ان پرندوں کو روٹيوں کا چورا ڈال کر ان کي چہچہاہٹ بند کر سکوں۔ يا حيرت، آقا درختوں ميں گھري سنگي بنچ پر بيٹھے تھے۔

    ميں نے حيرت سے سر ہلايا کہ آقا نے اتنے شور و غُل والي جگہ پر بيٹھنا کيسے پسند کيا ہوگا اور ان سے چائے کا پوچھنے ہي والا تھا کہ انہوں نے مجھے ديکھ کر آہ بھري اور اپني آنکھيں موند ليں۔ اسي وقت تمام پرندے ايک ساتھ اس طرح خاموش ہو گئے جيسے کہ وہ صرف آقا کے لئے چہچہا رہے ہوں۔

    اس اچانک خاموشي پر ميرا سانس رک سا گيا۔ ميرے سامنے ايک ايسي کرامت ہوئي جو عموماً آقا سے منسوب کي جاتي ہيں۔ ميں نے کبھي ايسا حيرت انگيز منظر نہيں ديکھا تھا کہ جس سے ميں ششدر رہ گيا ہوں۔

    اُس وقت مجھے ان چيزوں کے بارے يا آقا کے بارے کتني کم معلومات تھيں۔ ميرے ذہن ميں ہزاروں تصورات گھومتے رہے ليکن ميں پرندوں کے اس رويے کے بارے کوئي توجيہہ نہ سوچ سکا۔ نہ تو مجھے ان کے چہچہانے کي وجہ سمجھ آئي اور نہ ہي ان کے ايک ساتھ خاموش ہونے کي۔

    تاہم زيادہ سوچنے کا وقت نہيں تھا۔ دن شروع ہو رہا تھا اور گھر کے ديگر افراد بھي جلد ہي جاگ جاتے۔ ميں نے پرندوں کا تذکرہ گول کر ديا اور نہ ہي کسي اور سے پوچھا کہ انہوں نے کيا ديکھا يا کيا سنا۔ آقا کي عادات و اطوار پر بحث نہيں کي جاتي۔ باورچي خانے کے نگران نے نشست کے کمرے ميں فرش پر بچھے ايراني قالين پر صفراء يعني لمبا دسترخوان بچھايا۔ پھر اس نے ناشتے کے لئے نمک، روٹياں، پنير، مکھن اور مربے رکھے۔ تاہم ميري بھوک مر چکي تھي۔

    آقا ہمارے ساتھ ناشتے کے لئے نہيں آئے۔ کچھ دير بعد جب ميں نے باغ ميں ديکھا تو آقا بھي اور پرندے بھي، دونوں دکھائي نہيں دے رہے تھے۔

    دوپہر سے ذرا قبل آقا واپس لوٹے۔ ظاہر ہے کہ کسي نے بھي پوچھنے کي جرأت نہيں کي کہ وہ کہاں گئے تھے۔ آقا بازار چہل قدمي کو جانے لگے تو بھي کسي نے سوال نہيں کيا۔ اگرچہ آقا بازار کبھي نہيں گئے تھے ليکن اس بار ان کا مقصد ايک خاص قسم کا قہوہ تلاش کرنا تھا جو وہ خود نہيں پيتے تھے۔ ہر کوئي حيران تو ہوا ليکن کسي نے آقا سے پوچھنے کي کوشش نہيں کي۔ آقا نے مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کيا تاکہ ان کي خريدي اشياء کو اٹھا سکوں۔

    آہ، کاش ميں بيان کر سکوں کہ اس صبح بازار کي خوشبوؤں اور نظاروں نے مجھے کتنا خوش کيا تھا۔ دکانوں سے گذرتے ہوئے پرندوں والي بات ميرے حافظے سے محو ہو چکي تھي۔ بہت سارے تاجروں نے آقا کو پہچان کر انہيں پھل اور روٹياں پيش کيں اور دعا کي درخواست کي۔ آقا نے مجھے جيبي ڈائري ميں ان سب کے نام لکھنے کا حکم ديا اور تاجروں سے کہا کہ وہ ان تمام نذرانوں کو غريبوں ميں بانٹ ديں۔

    انہوں نے کہا۔ شايد اس طرح خالقِ حقيقي ميري دعاؤں کو قبول کرے۔

    چند چيزيں خريدنے کے بعد آقا نے پرانے شہر کا چکر لگانے کا فيصلہ کيا۔ کچھ دير خاموشي سے چلتے ہوئے ہم آخرکار مسجد حرم الشريف جا پہنچے جس کے بارے مشہور ہے کہ وہ ہيکلِ سليمانؑي کے کھنڈرات پر بنائي گئي تھي۔

    اس عظيم گنبد کے سائے ميں مجھے ايک بوڑھا بھکاري دکھائي ديا۔ اس کا رنگ قہوے کي مانند گہرا تھا اور سفيد کچھے اور پھٹي چپلوں کے علاوہ اس نے سر پر بُني ہوئي ٹوپي پہني تھي۔ سنگي سيڑھيوں پر بيٹھے اپنے کشکول ميں خيرات ڈالنے والے لوگوں کے بارے پيشين گوئياں کر رہا تھا۔ اس کا قد لمبا اور جسم انتہائي دبلا تھا۔ سارے جسم ميں پسلياں اور کمزور سے پٹھے صاف دکھائي دے رہے تھے۔ ايسا لگتا تھا کہ جيسے وہ ابھي ابھي کسي قديم صحرا سے نکل کر آيا ہو ليکن اس کے سفيد بال اور داڑھي صاف ستھري اور کنگھي شدہ تھيں جو شايد اس نے نمازيوں کے خيال سے کي تھيں۔

    آقا نے رک کر لمحہ بھر اسے ديکھا۔ ميں نے اس شخص کو پہلے کبھي نہيں ديکھا تھا ليکن پھر بھي مجھے جانا پہچانا سا لگا۔ اچانک مجھے اس سے ہمدردي محسوس ہونے لگي کہ اس کے ضعف کے باوجود اس کي زندگي کتني سخت ہے۔

    ميں نے بہ آوازِ بلند کہا۔ پتہ نہيں اس کي دعائيں قبول بھي ہوتي ہوں گي۔

    آقا ميري جانب مڑے اور بولے۔ يقين کرو، اس کي دعائيں قبول ہوتي ہيں۔ آقا کي آنکھيں موٹي اور سفيد بھنوؤں کے نيچے چمک رہي تھيں۔ اس نے اپنے ليے کچھ نہيں مانگا، اس ليے اس کي دعائيں اتني ہي آساني سے آسمان تک پہنچتي ہيں جيسے سمندر سے بخارات اوپر کو اٹھتے ہيں۔ يہ فقير ہے جسے سکينہ کا حصہ نصيب ہوا ہے۔ ايسا سکون جو صرف اللہ کي مرضي کے سامنے سب کچھ قربان کرنے سے ملتا ہے۔ اے اسحاق، اس فقير کو تم پر ترس آنا چاہيئے۔ جب تم اپنے دل سے ديکھنا سيکھ لو گے تو تمہاري آنکھيں تمہيں دھوکہ نہيں دے سکيں گي۔ جا کر اس کے کشکول ميں سکے ڈالو۔ تمہاري ملکيت جتني کم ہوگي، اتنا ہي نفس کو قابو کرنا آسان ہوگا۔

    بظاہر کتني سمجھداري سے ميں نے اثبات ميں سر ہلايا حالانکہ مجھے کچھ بھي سمجھ نہيں آئي تھي۔ اب بھي مجھے نہ ہونے کے برابر سمجھ آئي ہے۔ تاہم ميں اس بوڑھے آدمي کے کشکول ميں چند سکے ڈالنے کو بڑھا جو کسي سخت پھل کو تراش کر بنايا گيا تھا۔

    جب اس نے سر اٹھا کر مجھے ديکھا تو ميرے ہاتھ سے سکے گر گئے۔ اس کے بال اور داڑھي سفيد تھے اور بوڑھے چہرے پر جھرياں ايسے پھيلي ہوئي تھيں جيسے کسي اجنبي سرزمين پر وقت اور صحرائي ہوا سے نقشے بن جاتے ہيں، بے ڈھنگے ليکن پُرکشش۔ ميں اس سے نظريں چُرانا چاہتا تھا ليکن اس کي آنکھوں نے جيسے مجھے جکڑ ليا ہو، ميں ہلنے جُلنے سے بھي قاصر ہو گيا تھا۔ اس کے بوڑھے چہرے پر اس کي آنکھيں انگاروں کي مانند دہک رہي تھيں۔ ان ميں اتنا سکون تھا کہ مجھے اپنے زُعم پر افسوس ہونے لگا۔

    اس نے کہا۔ تم لمبے سفر پر نکلو گے۔

    پھر اس نے اپني نظريں جھکا ليں اور پھر نہيں بولا۔ ميں بے بسي سے جھکا اور آقا کے پيچھے کسي بچے کي مانند جا چھپا۔ ميں نے بوڑھے کے الفاظ بمشکل ہي سنے تھے تاہم مجھے پتہ چل گيا تھا کہ يہ فقير جس کے پاس اللہ کے سوا اور کچھ نہيں، امير انسان تھا جبکہ اچھے کپڑوں ميں ملبوس، سِکوں

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1