Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

Sham e Ghariban
Sham e Ghariban
Sham e Ghariban
Ebook172 pages1 hour

Sham e Ghariban

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

"Sham e Ghariban" is a literary book written in the Urdu language, consisting of modern-day short stories and micro fiction. This captivating collection features 52 stories that delve into the lives of common people, capturing both their sad and happy moments, as well as their deep feelings and emotions.

LanguageUrdu
Release dateJan 20, 2024
ISBN9788196480363
Sham e Ghariban
Author

Anwar Mirza

Anwar Mirza is a well-known figure in Urdu literature. He excels in writing short stories, micro fiction, children's stories, poems, and even animated web series. His notable achievement includes compiling a thousand-page book of one thousand micro fiction pieces. "Asri Afsanche," is a compilation of 78 micro fiction stories. His present books "Sham e Ghariban" has 53 Short stories or micro fiction.

Related to Sham e Ghariban

Related ebooks

Reviews for Sham e Ghariban

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    Sham e Ghariban - Anwar Mirza

    حرفِ اوّل

    میَں نے جب پہلا افسانہ لکھا تو سُنانے کے لیے سب سے پہلے جا پہنچا بر صغیرکے معروف افسانہ نِگار سلام بِن رزّاق کے پاس... یہ 70 ؍کی دہائی کی بات ہے... پیشے سے اُردو اسکول ٹیچر سلام صاحب اُن دنوں کُرلا قصائی واڑہ میں رہتے تھے...اُردو کی ادبی دنیا میں مجھ جیسے نومشق اور نووارد سے بھی بڑی شفقت و محبت سے پیش آتے...اُس زمانے میں ٹیلیفون عام نہیں تھا، لہٰذا اکثر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے...کبھی میَں اپنے دوست ساجد رشید کے ساتھ، تو کبھی اکیلا اُن کے گھر جا دھمکتا...مگر ہماری اچانک اور غیر متوقع آمد سے بھی اُن کے ماتھے پر کبھی شکن تک نہ آتی...

    سلام صاحب نے میرا افسانہ، عنوان اُس کا غالباً ’تاش کے پتّے‘ تھا، بڑی توجہ سے سُنا...اور فراخدلی سے کہا’اِس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارا پہلا افسانہ ہونے کے لحاظ سےیہ بہت اچھّا ہے...لکھتے رہو...‘

    پھر اُنہوں نے زبان و بیان سے متعلق چندغلطیوں کی نشاندہی کی...اورکہا ’ اِس ہفتے کی ادبی نشست میں تم یہ افسانہ پڑھنا...‘

    ممبئی میں ماہنامہ ’شاعر‘ کے دفتر کے مقابل حفیظ آتشؔ امروہوی کے دولت کدے پرہر سنیچر کے روزادبی محفل جمتی...شاعر و افسانہ نِگار اپنی اپنی نئی تخلیقات پڑھتے اورخوب بحث و مباحثہ چلتا...کمال یہ کہ ہر ہفتے کسی نہ کسی قلمکار کے پاس کوئی نیا افسانہ ضرور ہوتا...

    مجھے یاد ہے افسانچہ یا مِنی افسانہ اُس زمانے بھی لکھا جا رہا تھا...ایک کھلنڈرا سا لڑکا جو کہ منٹوؔ کا زبردست مدّاح تھا...نام اب اُس کا یاد نہیں...منٹوؔ کے انداز میں افسانچے لکھتا اور سُنایا کرتا...

    بہرحال...سلام بِن رزّاق، انور قمر، انور خان اور ساجد رشید وغیرہ کی موجودگی میں میَں نے یہی افسانہ پڑھا...سب نے مناسب حوصلہ افزائی کی...معروف افسانہ نِگارانور قمر نے سب سے زیادہ تعریف کی...

    مگر...وہ افسانہ میَں نے آج تک کہیں شائع نہیں کروایا...

    مذکورہ بالا افسانہ نِگاروں میں انور قمر کا مطالعہ کافی وسیع تھا... بطورِ خاص انگریزی ادب وہ بہت پڑھتے...اور جب بھی مِلتے تو شاہکار قسم کا کوئی انگریزی افسانہ مختصراً ضرور سُناتے... مطالعے کے سلسلے میں اُن سے منسوب ایک دلچسپ واقعہ کچھ اِس طرح ہے کہ...

    ممبئی کی ایک ادبی نشست میں قرۃ العین حیدر کا افسانہ’حاجی بابا گُل بیک تاشی‘ خود اُنہی کی زبانی سُننے کا شرف حاصل ہوا تھا...

    اُن دنوں ہم نے ’کھلونا‘ اور ’شمع‘ پھینک کر اچانک ہی ادبی دنیا میں چھلانگ لگا دی تھی...کچھ سمجھ ومجھ میں تو آتا نہیں تھا...مگر میَں اور ساجد رشید... ہر اُس ادبی نشست میں جا پہنچتے جہاں کسی بڑے اور نامور افسانہ نِگار کی آمد متوقع ہو...

    قرۃ العین حیدر کی نشست میں بھی ہم دونوں پہنچے... افسانہ سُن کر سینئر فکشن نِگاروں نے اپنے اپنے انداز میں تبصرے کئے...مگر میَں اور ساجد رشید ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے...ظاہر ہے افسانہ ہمارے دِل میں اُترنے کے بجائے...سر پر سے گزر گیا تھا...اُس نشست میں سلام بن رزاق اور انور قمر بھی موجود تھے...کچھ نوجوان ’حاجی بابا گُل بیک تاشی‘ سُن کر احتجاج کرنے لگے کہ یہ کیا افسانہ ہے...؟

    تب انور قمر نے نہایت مشفقانہ انداز میں افسانے کی توضیح پیش کی تھی...اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتا دیا تھا کہ اِس قسم کے افسانے سمجھنے  کے لیے25 سال پڑھنا پڑتا ہے...مطالعہ کرنا پڑتا ہے...

    یہ سُن کر میَں نے اور ساجد رشید نے معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کو دیکھا ...ساجد نے کہا...

    ’’چل اُٹھ... !  25 سال بعد آئیں گے...!‘‘

    ممبئی کےادیبوں کے اِس حلقہ میں افسانہ نِگار انور خان ہمیشہ مجھے افسانے لکھنے کی ترغیب و تحریک دیتے رہتے تھے...مگر اُنہی دنوں بہتر کہانیوں کی جستجو میں معروف ادیب کملیشور کے ہِندی رسالہ’ساریکا‘ میں میری دلچسپی بڑھنے لگی تھی اور بالآخراُردوتراجم کا سلسلہ شروع ہوا...

    سب سے پہلا ترجمہ ماہنامہ ’شاعر‘ میں شائع ہوا جوکہ مشہور ہِندی رسالہ’گیانودئے‘ میں چھپی کشمیری زبان کے ایک سینئر رائٹر کی یادگارکہانی تھی...یادداشت کے مطابق کشمیری افسانہ نِگار کا نام ’محمد علی لون ‘تھا...

    ایک دِن انور خان مِلے تو پوچھا...’’آجکل کیا لِکھ رہے ہو...؟‘‘

    چونکہ تخلیقی سطح پر کچھ لِکھ ہی نہیں رہا تھا لہٰذا کہا...’’اِن دنوں تو بس خط لِکھ رہا ہوں۔‘‘

    انور خان نے از راہِ مذاق سوال کیا...’’کہاں شائع کرواتے ہو...؟‘‘

    میَں کچھ سٹ پٹایا... پھر کہا...’’میَں غاؔلب نہیں ہوں...‘‘

    اُن کا قہقہہ بُلند ہوا...

    پھر ایک دِن...

    ایک شاہکار قسم کی طویل ہندی کہانی کا اُردو ترجمہ کرکے’شب خون‘ کے تازہ شمارے میں رکھا اور چل دیا اُسی ہفتہ واری ادبی نشست کے ٹھکانے کی جانب... مگر...شامتِ اعمال، ترجمہ شدہ اُردو کہانی کے تہہ کیے ہوئے کاغذات ’شب خون‘ سے پھِسل کر کہیں گِر گئے... مگر میَں لاعلم رہا...راستے میں جے جے اسپتال کارنر کے بُک اسٹال پر ساجد رشید مِلے... اُنہیں دِکھانے کیلئے رسالہ کھولا تو افسانے کے کاغذات ندارد...!  ایسا لگا جیسے نوٹوں سے بھرا بیگ کھوگیا ہو... شدید صدمہ پہنچا...ساجد کو بھی افسوس ہوا...اُس دِن میَں نشست میں نہیں گیا...

    وہاں ساجد نے میری غیر موجودگی کا سبب اور ترجمہ شدہ افسانہ کھوجانے کی رُوداد سُنائی توانورخان نے اپنے مخصوص انداز میں قہقہہ لگا کر کہا...

    ’’اب انور مِرزا ضرور افسانہ لِکھے گا...!‘‘

    بعض مستند و معتبر فِکشن نِگار کہتے ہیں کہ افسانچہ وہی لکھ سکتا ہے جو افسانہ لکھنا جانتا ہو...یہ بات اُس وقت دُرست محسوس ہوتی ہے جب اکثرو بیشتر مطالعے میں ایسے افسانچے آتے ہیں جنہیں چاہے جو کہہ لیں...افسانچہ تو ہر گز نہیں کہہ سکتے...

    جس طرح انسان کا بچّہ انسان ہی ہوتا ہے...بالکل اُسی طرح افسانچہ اپنی مختصر شکل میں بھی افسانہ ہی ہونا چاہئیے...کسی انوکھی خبر سے متاثر ہوکرلکھی گئی کوئی تحریر تب تک افسانچہ نہیں بنتی جب تک کہ اُس میں کہانی،افسانویت اور کلائمکس نہ ہو...

    ایسی مثالیں بھی سامنے ہیں کہ قلمکار کے منفرد اسلوب، پیشکش، ڈرامائی عناصراور برجستہ مکالموں سے ایک عام اور معمولی سا موضوع بھی کامیاب افسانچہ بن سکتا ہے...

    کہانی ہمیشہ

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1