Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

Fareb / فریب
Fareb / فریب
Fareb / فریب
Ebook113 pages1 hour

Fareb / فریب

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

آپ اگر یہ توقع کررہے ہیں کہ میری کہانیوں میں ایک برے کردار کو ایک اچھےکردار سے ہمیشہ ہارنا چاہئے، تو میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں ۔ ایسا کم از کم میری کہانیوں میں آپ کو ذرا کم ہی پڑھنے کو ملے گا ۔ کیونکہ حقیقی زندگی کسی فلم کی طرح نہیں ،جس کے اختتام پر ہمیشہ ایسا ہو۔ در حقیقت دنیا میں اکثر اس کےمخالف ہوتا ہے ،جس میں ایک برا انسان سزا ملنے کی بجائے وقت کے ساتھ مزید طاقتور، بااثر اور ظالم بن کر ابھرتا ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ باوجود اس کے کہ قانون میں اس کے ہر برے کرم کی سزا موجود ہے ،مگر پھر بھی اس برے انسان کو کبھی بھی اپنے کرموں کی سزا نہیں ملتی۔

مگر انسان کے بعض کرم ایسےبھی ہیں جن کی سزا تجویز کرنا مشکل ہے ۔جیسا کہ ایک 'بے وفا ' کے لئے کیا سزا ہو سکتی ہے؟ کیا اس طرح کے مجرم کی
قانون میں کوئی سزا ہے؟ ذرا سوچئیے ! اگر کوئی آپ کے جسم کو زخمی کرے تو اس کی سزا تو قانون میں موجود ہے ۔ مگر کوئی اگر آپ کی روح پرزخم لگائے تو اس کی قانون میں کیا سزا ہے؟ آج تک کسی بھی انسانی معاشرے نے قانونی طور پر ایسے جرم کی کوئی سزا تجویز کی ہی نہیں ۔

سوچنے والی بات یہ ہے کے اگر کوئی آپ کو ہراساں کرتا ہے یا ذہنی کوفت دیتا ہے جس کی وجہ سے آپ پریشان رہنا شروع کر دیتے ہیں اور مسلسل ذہنی دباؤ ( ڈپریشن) کا شکار ہو جاتے ہیں ،تو قانون میں اسکی سزا تو موجود ہے( خاص کر ترقی یافتہ مغربی معاشرے کے قانون میں)۔مگر 'بےوفائی' جیسا زخم جو انسان کو عمربھر ایسےکرب میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے شاید ہی کسی نے آج تک نجات پائی ہو؟ایسےسنگین جرم کی آج تک کوئی سزا موجود کیوں نہیں ؟ اگر آپ کو ایک دن کے لئیے قانون بنانے کی اجازت دی جاۓ تو آپ اس جرم کی کیا سزا تجویز کریں گے؟

سائنس میں ہرمسئلہ کاحتمی یا مستقل حل کسی فارمولا کی صورت میں تو ممکن ہے۔ لیکن جب بات انسانوں کے پیچیدہ رویوں کی ہو توشاید کوئی بھی حتمی حل ممکن نہیں؟ کیونکہ انسانی جبلت کے وہ پہلو جو ہمیشہ اس کی شخصیت کو غیریقینی بناۓ رکھتے ہیں ان میں تکبر، ہوس ، طاقت ، لالچ ، مادہ پرستی، خود غرضی اور خود فریبی جیسےعناصرغالب ہیں۔ لہذا ان عناصر کی معتدلی یا شدت انسان کو برائی یا تقوی کی طرف لے جاتی ہے۔

پس ،اس کتاب کی کہانیاں بھی ایسی ہی انسانی خصلتوں پر مبنی زندگی کےان پیچیدہ پہلووں اور طرزعمل کو پیش کرتی ہیں جوکہانی کے کرداروں کو غیرمتوقع صورتحال کی طرف لے جاتی ہے۔ لہٰذا ایک برے کردار( ولن) کو کسی اچھے کردار( ہیرو )کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارنے کے بجائے میں ہمیشہ ایک برے کردار کو ایسے ناگزیراورغیرمتوقع صورتحال میں مبتلاکرکے اپنی کہانی کا اختتام کروں گا جہاں صرف پچھتاوا، افسوس یا کرب ہی اس گناہ گار کی باقی ماندہ زندگی کے لئیے سزا بن کر رہ جائے ۔

LanguageUrdu
Release dateFeb 18, 2021
ISBN9781005066727
Fareb / فریب
Author

Zindan / زندان

زندان، کا اصل نام ́عادل محمود ́ ہے لیکن وہ اپنی تحریروں کو قلمی نام ́زندان ́ کے ساتھ پیش کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ پاکستان کے شہر لاہور میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے، لیکن ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ میں گزرا۔ ان کی دلچسپی کا بنیادی شعبہ اردو افسانہ لکھنا ہے۔ ان کی پہلی کتاب 'ناگفتہ' ٢٠١٨ میں، اور دوسری کتاب ́فریب ́ ٢٠٢١ میں شائع ہوئی- ان کی دوسری کتاب ́فریب ́ کے افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ پرفیڈیوس کے نام سے کئیںڈل، ایمیزون پرشائع ہو چکا ہے۔ ان کی تیسری کتاب دہر ٢٠٢٤ میں منظر عام پر آ چکی ہے

Read more from Zindan / زندان

Related to Fareb / فریب

Related ebooks

Related categories

Reviews for Fareb / فریب

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    Fareb / فریب - Zindan / زندان

    حرام

    '' اب چھوڑ بھی دےآخر بچہ ہی تو ہے۔۔۔آخر کتنا مارےگا ۔۔۔کیا اس کی ہڈی پسلی توڑے گا '' یہ کہتے ہوۓ ارشد کی بیگم آگے بڑھی اور اپنے بیٹے کو چھڑانے لگی ۔

    ماں کو بیٹے کی طرفداری کرتا دیکھ کر ارشد مزیدبھڑکا '' تو پیچھے ہٹ جا۔ میں آج اسے ایسا سبق سکھاؤں گا کے آئندہ ساری عمر یہ چوری نہیں کرے گا ۔''

    اسی دوران ارشد کی بیگم نے ، جو باپ اور بیٹے کے درمیان آ چکی تھی، ا پنے بیٹے کو پشت کے پیچهے چھپاتے ہوۓ کہا '' بس کر دے ۔۔۔ مار لیا ہے تو نے آج جتنا مارنا تھا۔ ''

    پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ارشد بولا '' تیرے لاڈ پیار نے اسے بگاڑ دیا ہے۔ یا خدا ! آج یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ لوگ میرے بیٹے کو چوری کرتے ہوۓ پکڑیں؟ '' یہ کہتے ہوۓ ارشد کرسی پر بیٹھ گیا ، کیوں کے اب وہ خود بھی بیٹے کو مار مار کر تھک چکا تھا ۔ بیٹھے بیٹھے غضبناک چہرے سے ارشد نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا ''دفعہ ہو جا میری نظروں سے اس وقت ۔ یہ نہ ہو کہ میں واقعی تیری ہڈی پسلی توڑ دوں۔ '' ۔ یہ سنتے ھی ارشد کی بیگم نے اپنے بیٹے کو اشارے سے کمرے سے باہر چلے جانے کا کھا ۔

    کچھ دیر بعد جب ارشد کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اسنے بیگم سے کہا '' پتا نہیں کہاں مجھ سے غلطی ہوئی ہے اولاد کی تربیت میں؟ ساری عمر میں نے کبھی حرام نہ خود کھایا اور نہ ھی اولاد کو کھلایا ۔ یا الله !یہ کس غلطی کی سزا ہے کہ میں یہ دن دیکھ رہا ھوں ؟''

    بیگم نے کہا '' خیر ہے بچہ ھی تو ہے۔۔۔ اگر شرارت سے اس نے دوکان سے بسکٹ کا پیکٹ اٹھا لیا تھا تو دوکاندار کو چاہیے تھا کے اسے بچہ سمجھ کر پیار سے سمجھاتا ، نہ کے سیدھا تیرے پاس آ گیا شکایت لے کر۔ ''

    ارشد نے غصے سے کہا '' بس تو ماں ہے نہ اسکی ۔اسی لئے کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈھ رہی ہے بیٹے کی معصومیت کے حق میں۔دیکھ ! چوری تو چوری ہی ہے ۔ اور بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ تو جانتی ہے کے سارا گاؤں میری کتنی عزت کرتا ہے ، یہاں تک کے گاؤں کے لفنگے اور آوارہ بھی جب مجھے گزرتا دیکھتے ہیں تو میری حیا کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کے دکاندار اسے سیدھا میرے پاس لایا ، ورنہ وہ مار مار کر وہیں اس کا حشر کر دیتا۔ ''

    بیگم نے ارشد کی با ت حتم ہوتے ہی کہا '' چل اب تو زیادہ غصہ نہ کر.۔۔۔ٹھیک ہے اس نے چوری کی ہے۔۔۔ مگر ابھی بچہ ہی تو ہے ۔۔۔صبح تو پیار سے اسے سمجھانا کے آئندہ سے ایسا کام نہ کرے۔''

    ارشد نے جواب دیا ''صرف سمجھاؤں گا ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ لے جا کر دکاندار سے معافی بھی منگواؤں گا۔اور دکاندار سے کہوں گا کے آیندہ اگر یہ ایسی حرکت کرے تو بیشک اسکی ہڈی پسلی توڑ ڈالے ۔ اسے میری طرف سے کھلی اجازت ہے''۔

    رات کافی ہو چکی تھی اور غصے میں ابھی تک ارشد نے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔لہٰذا تھوڑی دیر میں بیگم کھانا گرم کر کے لے آی ۔ ارشد نے بیگم کے ساتھ مل کر کھانا کھایا اور اسکے بعد چارپائی پر سونے کے لیے جا لیٹا ۔ نیند ابھی ارشد کی آنکھوں سے کافی دور تھی اور وہ بازو کو ماتھے پر رکھے گھری سوچ میں گم تھا ۔ کافی دیر سوچ میں گم رہنے کے بعد ارشد نے دائیں طرف کروٹ بدلی اور یہ کہتے ہوۓ آنکھیں بند کر لیں ''معلوم نہیں میری اولاد نے آج یہ حرام کسب کیوں کیا ہے؟'' ۔

    صبح کا وقت تھا ، ارشد اپنی بیگم اور تینوں بیٹوں کے ہمراہ ناشتہ کر رہا تھا ۔ چاۓ کا گھونٹ بھرتے ہوۓ ارشد نے اپنے منجلے بیٹے سے کہا ''دیکھ بیٹا ! کل تو نے انتہای گھٹیا حرکت کی ہے ۔ تو جانتا ہے کہ چوری ایک حرام کام ہے، اور حرام کسب کی الله بڑی سخت سزا دیتا ہے.۔اس لیے تم تینوں آج وعدہ کرو کہ زندگی بھر ایسا کوئی کام نہیں کرو گے جس سے تمھاری دنیا بھی خراب ہو اور آخرت بھی۔'' باپ کی یہ بات سن کر تینوں بیٹوں نے ہاں میں سر ھلایا ۔

    تھوڑی دیر بعد ارشد نےمنجلے بیٹے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا '' اب جلدی سے ناشتہ ختم کر اور چل میرے ساتھ رب نواز کی دکان پر اور اس سے معافی مانگ ۔دیکھ بیٹا یاد رکھ اپنی غلطی کی معافی مانگنا بھی انسانیت ہے ۔اب جلدی سے چاۓ ختم کر اور تیار ہو جا ۔۔۔ پہلے ہم دونوں رب نواز کی دکان پر جائیں گے اور اسکے بعد تو اسکول چلے جانا اور میں اپنے کھیتوں کی طرف چلا جاؤں گا''۔

    ناشتہ ختم کرنے کے بعد ارشد اپنی موٹر سائیکل کو صاف کرنے لگا اور اس کا منجلا بیٹا بستہ اٹھاۓ باپ کے ساتھ جانے کے لیے تیار کھڑا تھا ۔ اسی دوران ارشد کی بیگم نے ارشد کو مخاطب کرتے ھوۓ کہا '' آج شام جلدی واپس آ جانا ۔یاد ہے نہ کہ آج نمبر دار کے بیٹے کے ولیمہ پر جانا ہے۔ ''ارشد نے ہاں میں سر ہلایااور موٹر سائیکل

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1