Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

کلیسیائیں قائم کرنا
کلیسیائیں قائم کرنا
کلیسیائیں قائم کرنا
Ebook332 pages3 hours

کلیسیائیں قائم کرنا

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

ہم جانتے ہیں کہ کلیسیائی نشو و نما کا حصول مشکل بلکہ کٹھن ہے۔ ہر ایک پاسبان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی کلیسیا بڑھے اور ترقی کرے۔ یہ کتاب کلیسیائی نشو ونما سے متعلق آپ کے سوالات کا جواب ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے آپ سمجھیں گے کہ کس طرح مختلف چیزیں کلیسیائی نشو و ونما اور ترقی کے لئے باہم مل کر کام کرتی ہیں۔عزیز پاسبان جیسے جیسے اس کتاب کی باتیں اور مسح آپ کے دل میں اُترتا جائے گا،تو پھر آپ اُس کلیسیائی نشو و نما کا تجربہ حاصل کرنا شروع ہو جائیں گے جس کے لئے آپ ایک عرصہ سے دُعا کرتے چلے آرہے ہیں۔

LanguageUrdu
Release dateJun 28, 2018
ISBN9781641352819
کلیسیائیں قائم کرنا
Author

Dag Heward-Mills

Bishop Dag Heward-Mills is a medical doctor by profession and the founder of the United Denominations Originating from the Lighthouse Group of Churches (UD-OLGC). The UD-OLGC comprises over three thousand churches pastored by seasoned ministers, groomed and trained in-house. Bishop Dag Heward-Mills oversees this charismatic group of denominations, which operates in over 90 different countries in Africa, Asia, Europe, the Caribbean, Australia, and North and South America. With a ministry spanning over thirty years, Dag Heward-Mills has authored several books with bestsellers including ‘The Art of Leadership’, ‘Loyalty and Disloyalty’, and ‘The Mega Church’. He is considered to be the largest publishing author in Africa, having had his books translated into over 52 languages with more than 40 million copies in print.

Related to کلیسیائیں قائم کرنا

Related ebooks

Reviews for کلیسیائیں قائم کرنا

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    کلیسیائیں قائم کرنا - Dag Heward-Mills

    باب1

    کلیسیائی وسعت

    ترقی / اضافہ

    ایک وقت تھاجب لوگ سوچ و بچار کرتے تھے کہ آیا کلیسیا ترقی بھی کر رہی ہے یا نہیں۔آج کے دَ ور میں کلیسیا میں کئی ایک سرگرمیاں اور بہت سے پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا خدا کی بادشاہی آگے بڑھ رہی ہے یا پھر ایک دائرے میں گھوم رہی ہے؟ 

    بعض اوقات بڑے شہریوں میں آپ دیکھتے ہیں کہ نئی کلیسیائیں وجود میں آتی ہیں۔اور بالعموم یہی کلیسیائیں شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہیں، ہر کسی کی زبان پر اُن ہی کلیسیائیوں کا ذکر ہوتا ہے۔ یوں لگتاہے جیسے خدا اُن کلیسیاؤں کے وسیلہ سے کوئی نیا کام کر رہا ہے۔لیکن جب ہم اُن کلیسیاؤں کا بغور جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے علم میں یہ بات آتی ہے کہ قریبی کلیسیاؤں سے آنے والے لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے یہ کلیسیائیں وجود میں آئی ہیں۔

    خدا کی بادشاہی ایسے نفسانی مسیحیوں سے بھرپورہوتی ہے جو ہمیشہ ہی کسی نئی چیز کی تلاش میں ہوتے ہیں جو اُن کے لئے خوشی اور خرمی کا باعث ہو۔بہت سے لوگ جوش سے بھر جاتے ہیں ا ور بڑااطمینان محسوس کرتے ہیں کہ ان کی کلیسیائیں ترقی کر رہی ہیں اور بڑی بیداری کا سماں ہے۔ لیکن حقیقت میں، خدا کی بادشاہی میں نشو و نما اور افزائش کا بہت تھوڑا کام ہو رہا ہوتاہے۔ خدا کی بادشاہی کو در حقیقت نشو و نما اور افزائش کی ضرورت ہے۔ 

    برسو ں پہلے، یورپی راہنما ایشیا اور افریقہ میں مشنری بھیجا کرتے تھے۔قربانی کے اِس عمل سے پوری کی پوری قومیں مسیحی ہو گئیں۔ وہ لوگ جو پہلے بت پرست تھے مسیح پر ایمان لے آئے۔ فریب نہ کھائیں، دُنیا میں ابھی بھی بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس ایک مؤثر کلیسیا یا پاسبان موجود نہیں ہے۔ مسیحی حلقوں میں آج کلیسیا کی حقیقی ترقی اور افزائش کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ 

    جب دو سو سال پہلے یورپی قائدین مشنری بھیجتے تھے، تو اُس وقت صرف ایک ارب لوگ دُنیا میں موجود تھے۔ لیکن آج2004میں 1 ارب لوگ موجود ہیں۔ ہمیشہ ہی سے لوگو ں کا یہ شکوہ رہا ہے کہ جس تناسب سے دُنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اُس تناسب سے.6 ڈاکٹرز اور صحت عامہ کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ 

    کیاکبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ لوگوں نے دُنیا کی آبادی کی نشو و نما کے تناسب سے پاسبانوں کی کمی کا شکوہ کیا ہے؟ جس قدر آج اِس روئے زمین پر آبادی موجود ہے، کیا اِس تناسب سے بشارت کا کام کرنے والے خادمین بھی موجود ہیں؟

    بادشاہی کو کیسے وسعت دیں

    جب ہم مسیح یسوع کی ہدایت پر عمل پیرا ہوں گے تو خدا کی بادشاہی واقعی میں ایک حقیقی ترقی اور افزائش کا تجربہ کرے گی۔خداوند یسوع کا آخری حکم یہی تھا کہ تم دُنیا میں جا کر شاگرد بناؤ۔

    یسوع نے پاس آکراُن سے باتیں کی اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتو پر عمل کریں جن کا میں نے تم کوحکم دیا اور 28:18-20 دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔ متی

    خدا کے کلام کے اِس حصہ میں، خداوند یسوع ہمیں یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگوں کو ‘‘ خدا کے کلام ’’ کی تعلیم دیں۔ جب تک آپ لوگوں کو باقاعدگی سے جمع نہ کریں تو آپ کسی طور پر بھی اُن کو تعلیم نہ دے سکیں گے۔

    اصل میں کلیسیا ہے کیا

    تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مسیحی لوگوں کا باقاعدگی سے فراہم ہونا کلیسیا کہلاتا ہے۔ بالفاظ دیگر، ہمارا خداوند ہمیں یہ کہہ رہاہےکہ ہم دُنیا میں جا کر باقاعدگی سے لوگوں کو جمع کریں تاکہ اُنہیں خدا کے کلام کی تعلیم دے سکیں۔ خدا لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے فراہم کرنے میں مصروف عمل ہے۔ خدا اپنے روح القدس کے وسیلہ سے ایسے مرد و زن کو کھڑا کر رہا ہے جو دُنیا کے مختلف حصوں میں جا کر باقاعدگی سے لوگوں کو فراہم کریں تاکہ اُنہیں خدا کے کلام کی تعلیم دے سکیں۔ 

    جس قدر لوگ باقاعدگی سے فراہم ہوں گے، جماعتیں وجود میں آئیں گی، اُسی قدر ارشادِ اعظم کی تکمیل زیادہ ہوگی۔ جس قدر زیادہ سے زیادہ گرو پس میں تعلیمی سلسلہ قائم ہوگا اُسی قدر ارشادِ اعظم پر بھی زیادہ سے زیادہ عمل ہوگا۔ یہی گروپس وہ کلیسیائیں ہیں جنہیں خداوند یسوع کے وفادار اور تابعدار خادمین قائم کر رہے ہیں۔

    ہم لوگوں کو متاثرکرنا پسند کرتے ہیں

    بد قسمتی سے، بہت سے پاسبان حضرات کو یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ لوگ اُن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ایسی سوچ اور ذہنی دباؤرکھنے والے قائدین کبھی بھی ارشا د اعظم کی تکمیل نہیں کر پاتے۔ ہماری تو بس یہی سوچ اور خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے پاس ایک بہت بڑی کلیسیا ہو جسے لوگ دیکھ کر حیران رہ جائیں۔ہم تو اِس بات کے خواہش مند رہتے ہیں کہ لوگ جانیں کہ ہم بہت عظیم قائد ہیں۔جماعت جس قدر بڑی ہوتی ہے پاسبان اسی قدر اہم اور عظیم سمجھا جاتا ہے۔ 

    رعایا کی کثرت میں بادشاہ کی شان ہے پر لوگوں کی کمی میں حاکم کی تباہی ہے۔ امثال14:28

    ارشادِ اعظم کی تکمیل کے پیش نظر جس قدر بھی ممکن ہو مختلف جگہوں پر زیادہ سے زیادہ جماعتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس دُنیا کی وسعت اور لوگوں کی تقسیم اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ پاسبان اور لوگ ایک جگہ سے ایک کلیسیا سے افزائش اور نشو ونما کے لئے دوسری جگہوں پر منتقل ہو جائیں۔ اگر ہم واقعی میں اِس تعلق سے سنجیدہ ہیں تو پھر خداوند کی تابعداری کے سوا اور کوئی انتخاب ہمارے پاس نہیں ہے۔ 

    لازم ہے کہ قائدین کی تربیت کی جائے۔ پاسبانوں اور مسیحی کارکنوں کی ہر صورت میں تربیت کی جائے۔ لازم ہے کہ کلیسیا میں ایسی ذہنیت اور سوچ کا خاتمہ ہو جس میں بعض لوگ اپنے آپ کو ‘‘ سپر سٹار’’سمجھتے ہیں۔ایسی سوچ ہی اِس بات کی خواہشمند ہوتی ہے کہ ایک عظیم پاسبان ہو جسے سب تسلیم کریں اور اُس کی تعریف کے پل باندھتے رہیں۔

    ہم زیادہ تر ایسی ہی سوچ اور ذہنیت کے جھانسے اور فریب کا شکار رہتے ہیں کہ جس پاسبان کی کلیسیا بڑی ہوگی۔ وہی آسمان پر عظیم خادم سمجھا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ آسمان پر بچوں کی سی طبیعت اور مزاج رکھنے والا پاسان عظیم سمجھا اور مانا جائے گا۔ 

    ‘‘ اُس وقت شاگرد یسوع کے پاس آکر کہنے لگے پس آسمان کی بادشاہی میں بڑا کون ہے؟’’

    اُس نے ایک بچے کو پاس بلا کر اُسے اُن کے بیچ میں کھڑا کیا۔ اور کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے۔ پس جوکوئی اپنے آپ کو اِس بچے کی مانند چھوٹا بنائے گا وہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہوگا۔

    18:1-4 متی

    خداوند یسوع مسیح نے اِس بات کو واضح کیا کہ کون خدا کی بادشاہی میں سب سے عظیم ہوگا۔کوئی شخص بھی آپ کی عاجزی اور انکساری کو آپ کی کلیسیا کی تعداد سے ظاہر اور بیان نہیں کر سکتا۔ درحقیقت وہ پاسبا ن جن کی جماعتیں چھوٹی ہیں، اُنہی کو زیادہ عاجز اور فروتن سمجھا جائے گا۔ ( اِس لئے ایسے لوگ ہی آسمان کی بادشاہی میں عظیم ہوں گے۔ ) بہ نسبت ایسے پاسبانوں کے جن کی کلیسیائیں بڑی ہیں۔

    ہمیں تو اپنے مالک کے لئے زیادہ سے زیادہ جماعتوں اور کلیسیاؤں کی ضرورت ہے۔ آئیں کلیسیائیں قائم کرنا شروع کر دیں۔ ہر جگہ ہر ایک زبان میں کلیسیائیں قائم کرنا خدا کے ہر ایک خادم کا نصب العین ہونا چاہئے۔ قریہ قریہ ، گاؤں گاؤں کلیسیائیں قائم کرنے سے ہی خدا کی بادشاہی آگے بڑھے گی۔ 

    لوگوں کو متاثر کرنا چھوڑ دیں۔آئیں تعداد کے لحاظ سے اپنی منسٹری کو چھوٹا بڑا سمجھنا چھوڑ دیں۔ آئیں جماعتیں قائم کریں۔ کلیسیائی رہنما لوگوں کی طرف سے عزت کے طالب نہ ہوں۔ بلکہ اُس عزت کے طالب ہوں جو خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ 

    ’’ ‘‘تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو، اور وہ عزت جو خدای واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے کیوں کر ایمان لا سکتے ہو؟

    یوحنا5:44

    کیا بشارتی کام ارشاد اعظم کی تکمیل ہے؟

    بشارتی کام اور بڑی بڑی عبادات کا انعقاد بہت اچھی بات ہے۔ کیوں کہ یہ سب کچھ ایسی تعلیمات کا نکتہ آغاز ہے۔ لازم ہے کہ مبشر لوگ آگے بڑھیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا وہ ارشادِ اعظم کی تکمیل کر رہے ہیں؟ہاں اور نہیں۔‘‘ ہاں’’ کیوں کہ اُنہوں نے ایک عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اور ‘‘ناں ’’، اِس لئے کیوں کہ اُنہوں نے تعلیمی سلسلہ کا آغا ز نہیں کیا۔ کیوں کہ کلیسیائیں قائم کرنے سے ہی اِس کا آغاز ہوتاہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ارشادِ اعظم کی تکمیل نہیں ہوگی۔

    اِس بات کو اور بھی سادہ طریقہ سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ارشادہ اعظم کا آغاز کلیسیائیں قائم کرنے کے بعد ہوتاہے۔ کلیسیائیں ہی جماعتوں کو ہی خد ا کے کلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔

    نئی آبادیوں میں کلیسائیں قائم کریں  

    سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہاں پر ہی کلیسیائیں قائم کی جائیں جہاں پر خدا ہماری راہنمائی کرے۔شہرو ں اور دیہاتوں میں کلیسیائیں قائم کی جائیں۔ 

    میں نئی آبادیوں میں کلیسیائیں قائم کرنے کی ضرورت کو دیکھ رہا ہوں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اُن علاقہ جات پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں جہاں پر پہلے سے ہی کام ہو رہا ہوتاہے۔لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بہت سے نئے علاقہ جات بھی ہیں جن کے لئے خدا نے ہمیں بلایا ہے ۔لازم ہے کہ کلیسیائیں قائم کرنے ، روحیں بچانے اور جماعتوں کو تعلیم دینے کا جوش و جذبہ پھر سے بحال ہو۔

    لازم ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ایسی خدمت کے لئے تیار کریں جو قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔ 

    پاسبانوں کو اِس بات کی فکر لاحق ہونی چاہئے کہ مسلمان لوگ افریقہ اور دُنیا کے زیادہ تر حصہ پر قابض ہو رہے ہیں جبکہ کلیسیا کو اِس تعلق سےکسی قسم کی کوئی فکر مندی نہیں ہے۔

    مسلمان لوگ قربانی دینے والے ہیں اور اُنہیں بہت سی قوموں اور شہروں اور دیہاتوں میں جانے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن آج صورتحال ایسی ہے کہ وہ مسیحی جنہیں دُنیا کی انتہا تک جانے کا حکم دیا گیا ہے وہ اپنے قریبی علاقہ جات میں یا ایسی جگہوں پر بیٹھے ہوئے ہیں جہاں پر سہولیات زندگی اور آرام و آسائش اُن کی ضرور ت کے عین مطابق ہے۔

    لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ بلکہ دُنیا کے پر آسائش شہروں میں جہاں پر ماحول خوشگوار اور ضروریات میسر ہوں گی تم میرے گواہ ہوگے۔( یہ کونسی بائبل ہے؟)

    باب2

    کلیسیائیں قائم کرنے والوں کا طرز فکر

    ویسا ہی مزاج( طرز فکر، سوچ) رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ فلپیوں2:5

    خداوند یسوع مسیح کا طرزِ فکر اور سوچ ہی اُن کاموں کو محرک تھی جو اُس نے کئے۔ مذکورہ آیت کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ ہمارا طرز فکر اور سوچ بھی مسیح جیسی ہونی چاہئے۔ مسیح جیسا مزاج( طرز فکر اور سوچ رکھنے کا یہی معنی و مفہوم ہے۔ )جب آپ کا ذہن اور سو چ کسی خاص سمت میں متحرک ہوتی ہے تو تب ہی آ پ خدا کی مرضی کو پورا کر سکتے ہیں۔ 

    میں اِس تعلق سے لکھ رہا ہوں کہ اگر آپ نے کلیسیا کی پاسبانی کرنی ہے تو پھر آپ کا ذہن اور سوچ کس طرح متحرک ہواور کیسے کام کرے۔ اِس بنیاد کے بغیر کوئی شخص بھی کلیسیائیں قائم کرنے کے اِس کام میں پیش قدمی نہ کر سکے گا۔

    اگلے ابواب بنیادی طورپر کلیسائیں قائم کرنے کی اہمیت پر تعلیم دینے کے لحاظ سے بڑے اہم ہیں۔آپ کے اندر ایک جوش و لولہ پیدا ہوگا اور آپ کی خدمت کو ایک نئی سمت اور تحریک ملے گی تاکہ آپ آخری رسولی کلیسیائی تحریک میں عملی طور پر مشغول و مصروف ہو جائیں۔ 

    ۔ اِس بات کو سمجھیں کہ خدا آپ کے کام کی نگرانی کر رہا ہے 1

    پیارے دوستو!اِس زمین پر آپ کے کاموں کی نگرانی ہوتی ہے۔ جو صلاحتیں، رویا، لیاقتیں اور خوبیاں خدا نے آپ میں رکھی ہیں خدا اُن سب چیزوں کے تعلق سے آپ سے جواب دہی کرے گا۔خداوند آپ سے پوچھے گا کہ آپ نے دئے ہوئے توڑے سے کیا کیا ۔جو کچھ خدا نے آپ کو دیا ہے وہ آپ سے طلب بھی کرے گا۔ وہ آپ سے دئے گئے کام کاج کی پوچھ گچھ بھی کرے گا۔ 

    یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ سات کلیسیاؤں کے نام لکھے گئے سات خطوط میں، ایک فقرہ بار بار دہرایا گیا ہے۔ ‘‘ میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں۔ ’’ یہ کون سے کام ہیں؟ خواہ یہ کام کیسے ہی کیوں نہ ہوں، لازم ہے کہ یہ کام ادھورے نہیں بلکہ پورے ہوں۔ذیل میں دی گئیں آیات پر غور کریں۔

    میں تیرے کام اور تیری مشقت اور تیرا صبر تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تو بدوں کو دیکھ نہیں سکتا اور جو اپنے آ پ کو رسول کہتے ہیں اور ہیں نہیں تو نے اُن کو آزما کر جھوٹا پایا۔ مکاشفہ2:2

    میں تیری مصیبت اور غریبی کو جانتا ہوں ( مگر تو دولت مند ہے) اور جو اپنے آپ کو یہودی کہتے ہیں۔ اور ہیں نہیں بلکہ شیطان کی جماعت ہیں اُن کے لعن طعن کو بھی جانتا ہوں۔ مکاشفہ2:9

    میں یہ تو جانتا ہوں کہ تو شیطان کی تخت گاہ میں سکونت رکھتا ہے اور میرے نام پر قائم رہتا ہے اور جن دنوں میں میرا وفادار شہید انتپاس تم میں اُس جگہ قتل ہوا تھا جہاں شیطان رہتا ہے اُن دنوں میں بھی تو نے مجھ پر ایمان رکھنے سے انکار نہیں کیا۔مکاشفہ2:13

    میں تیرے کاموں اور محبت اور ایمان اور خدمت اور صبر کو تو جانتا ہوں اور یہ بھی کہ تیرے پچھلے کام پہلے کاموں سے زیادہ ہیں ۔ مکاشفہ2:19

    اور سردیس کی کلیسیا کے فرشتہ کو یہ لکھ جس کے پاس خدا کی سات روحیں ہیں اور سات ستارے ہیں وہ یہ فرماتاہے۔ کہ میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں کہ تو زندہ کہلاتاہے اور ہےُ مردہ۔ مکاشفہ3:1

    میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں، ( دیکھ میں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول رکھا ہے،کوئی اُسے بند نہیں کر سکتا)کہ تجھ میں تھوڑا سا زور ہے۔اور تو نے میرے کلام پر عمل کیا ہے۔ اور میرے نام کا انکار نہیں کیا۔ مکاشفہ 3:8

    خدا نے یہ نہیں کہا، ‘‘ میں تیرے گھروں اور کاروں کو جانتا ہوں۔’’ اُس نے یہ بھی نہیں کہا ،‘‘ میں تیری مر سڈیز بینز کو جانتا ہوں’’اُس نے کہا‘‘ میں تیرے کاموں کو جانتا ہوں۔’’ اُس نے یہ نہیں کہا، ‘‘ میں تیری ڈگریوں کو جانتا ہوں۔ ’’ اُس نے یہ نہیں کہا، میں تیرے والدین کو جانتا ہوں۔ ’’ اُس نے کہا، ‘‘ میں تیرے کامو ں کو جانتا ہوں۔’’ ‘‘

    ۔ کلیسیائیں قائم کرنا ہی خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کی کنجی ہے 2

    کیوں کہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہئے، وہ اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اُسے بچائے گا۔ مرقس8:35

    میں ، میں نے خدا کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ابھی میڈیکل کا ایک مشکل سکول مکمل کیا تھا۔ میری رائے میں 1985 میں بڑی مشکل سے امتحان کے مرحلہ سے باہر آیا تھا۔ جب میں اپنی اِس ساری کاوش اور محنت پر غور کر رہا تھا جو میں نے اُس امتحان کے لئے کی تھی تو مجھے اِس بات کا احساس ہوا کہ یہ سب کچھ قابلِ قدر نہیں ہے۔ میں میڈیسن کے لئے اِس قدر کیوں دُکھ اور تکلیف سے گزروں؟

    میں اپنی زندگی اِس مقصد کے لئے کیوں صرف اور خرچ کر دوں؟

    اِس کے بعد میں نے عہد کیا کہ خدا کا کام ہی میری زندگی کی اولین ترجیح ہوگا۔شرو ع میں تو میرا یہی خیال تھا کہ خدا ہی میری زندگی میں اوّل درجہ رکھتا ہے۔ میں ایک سنجیدہ مسیحی راہنما تھا۔ لیکن مجھے اِس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ خدا کا کام میری اولین ترجیح ہے۔اُس

    وقت سے پھر میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ میری زندگی کا ایک ہی نصب العین ہے اور وہ ہے خدا کا کام ! دیگر تمام چیزیں اور کام میری زندگی میں ثانوی حیثیت اختیار کر گئے ۔ یہ میری زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ 

    تب سے خدا اور اُس کا کام ہی میری زندگی میں اوّل درجہ رکھتا ہے۔ میڈیکل سکول نے میری

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1