Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

Zameen K Qaidi زمین کے قیدی
Zameen K Qaidi زمین کے قیدی
Zameen K Qaidi زمین کے قیدی
Ebook70 pages40 minutes

Zameen K Qaidi زمین کے قیدی

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

A team of scientists living in an experimental colony on Mars encounters Martian aliens and fears of destructions of their colony. Unexpectedly, the aliens offer them to settle down under the Martian surface where earth like atmosphere exists. What causes them to the destruction of their colony and how only one of the members survive? What message to the earthling is he sent down?

LanguageUrdu
PublisherArman Yousaf
Release dateAug 5, 2018
ISBN9780463352090
Zameen K Qaidi زمین کے قیدی

Related to Zameen K Qaidi زمین کے قیدی

Related ebooks

Reviews for Zameen K Qaidi زمین کے قیدی

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    Zameen K Qaidi زمین کے قیدی - Arman Yousaf

    زمین کے قیدی

    PRISONERS OF A PLANET

    ارمان یوسف

    باب۱

    سورج نے مشرقی افق سے جھانکتے ہوئے اطراف کا جائزہ لیا۔دبے پائوں پیش قدمی کرتے کرتے اجالے کی کمان سنبھالی اورتاک تاک کے مریخ پر چھائے اندھیرے پر روشنی کے تیر پھینکنے لگا۔ کرن کرن ٹھیک نشانے پربیٹھی اور دھیرے دھیرے تاریک چادر میں شگاف ہونے لگے۔سورج کا چہرہ فتح مندی کے غرور کے ساتھ رفتہ رفتہ اپنی چمک دمک میں اضافہ کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا آیا۔شب بھر سے برسرِ پیکار اندھیرے کا حوصلہ جواب دینے لگا تو اس نے بھی نئی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو سرخ آندھی میں تبدیل کیا اور مریخ کے گرد غلاف بن کے چھا گیا۔اپنی پوری آب و تاب کے باوجود سورج کا چہرہ مدھم ہوتے ہوتے لال پیلا ہو گیا۔اندھیرے اجالے کی اس ساری کشمکش کا نظارہ کرتے ہوئے سٹیفن نے تیزی سے آگے بڑھتے سورج کو دیکھا تومسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔سورج کا زرد زرد چہرہ دیکھ کر اسے یوں لگا جیسے کائناتی شجر میں دور کہیں آسمان کے وسیع میدان میں ایک مالٹا سا اگاہو۔

    جوں جوں دن چڑھتا جا رہا تھا ،گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے اپنے مخصوص خلائی لباس پر ہاتھ پھیرا جو اسے مزید کئی گھنٹے مریخ کی سطح پر رہنے کا وقت دے سکتا تھا مگر جلد ہی واپس جانے کی ٹھان لی اور تیزی سے خلائی کالونی کی طرف بڑھنے لگا۔ جوں ہی خلائی بستی کے قریب پہنچا تو سب سے پہلے ایک محفوظ احاطے میں اس کی نظرچھوٹے چھوٹے سر سبز و شاداب پودوں پر پڑی۔ وہ وہیں رک گیا اور نظر بھر کے ان پودوں کا نظارہ کرنے لگا۔اس نے اپنا ہیلمٹ اتارااور وہیں پودوں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔اس نے ایک بار پھر جھکتے ہوئے پودوں پر نظر کی ،مسکراتے ہوئے ننھی ننھی سی سبز ٹہنیوں پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگا:

    ’’ سر زمینِ مریخ ! کیا تو بھی مادرِ مہربان زمین کی طرح ہمیں خوش آمدید کہہ سکتی ہے ؟ ہماری غذا اور زندگی کی ضامن ان ننھی کونپلوں کو اپنے خونِ جگر سے بار آور کر سکتی ہے؟‘‘

    اس نے دائیں ہاتھ سے اپنے لباس سے جڑے ایک بٹن کو دبایا تو پتلی سی ایک ڈنڈی اس کے بازو سے نکلی جس کے دوسرے سرے پر کیمرا لگا تھا۔اس نے اپنے لہلہاتے ’کھیت‘ کے ساتھ تصویر بنائی اور ’’ساتواں سال۔۔۔تیسری کامیاب فصل‘‘ کے عنوان سے سوشل میڈیا پرشائع کر دی۔

    اس نے مریخ کی سطح سے واپس زمین کی طرف نظر کی۔خلا کی وسعتوں میں بھٹکتا ایک بلوری سا دائرہ اس کی نگاہوں میں سما گیا۔کششِ ثقل کی پائل پائوں میں باندھے زمین کی رقاصہ کو اس نے مستی میں جھومتے دیکھا تو صدیوں کا یہ منظر ایک پل میں سمٹ آیا۔ارضِ تمنا کی تمام تر رعنائیاں ،پھوٹتے شگوفے اور کھلتے گلاب ،تتلیوں کے رنگ، قوسِ قزح کے دھانی آنچل، چڑیوں کی چہچہاہٹ ،بارشوں کی رم جھم،آبِ رواں میں اٹکھیلیاں کرتی مچھلیاں ،آزاد فضا میں گنگناتے پنچھی،سفید بادلوں کے مفلر اوڑھے نیلا نیلا آسمان،وقت کے بہتے دریا میں رواں دواں زندگی۔۔ ۔اس نے چشمِ تصور میں ماضی کے اوراق پلٹے تومہربان اور انسانیت پرور ہستیوں کے چہرے بھی دیکھے اورخون آشام قاتل نگاہیں بھی۔ زمین پر بیتے ماہ و سال اورصدیاں اسے یوں لگیں جیسے محض ایک پل کا کھیل ہو،

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1