Discover millions of ebooks, audiobooks, and so much more with a free trial

Only $11.99/month after trial. Cancel anytime.

خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی
خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی
خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی
Ebook258 pages2 hours

خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی

Rating: 0 out of 5 stars

()

Read preview

About this ebook

متحدہ عرب امارات کے نائب صدر ، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد آل مکتوم اس نئی اور قابل قدر کتاب کے مصنف ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں دو ایسے نظریات کا جائزہ لیا ہے جن میں وہ خود بھی ذاتی دلچسپی رکھتے ہیں : خوشی اور مثبت خیالی ۔ اس کتاب میں انہوں نے ان دونوں نظریات کے درمیان تعلق کو بیا ن کیا اور یہ جائزہ پیش کیا کہ وہ کس طرح کامیابی، پیداوار اور تخلیقی قابلیتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں. شیخ محمد کی از خود تحریر کردہ اور فرانسیسی زبان میں مترجم یہ بصیرت انگیز کتاب دو پہلووں : ذاتی کہانیاں اور بین الاقوامی نقطہ نظر پر مشتمل ہے تاکہ اس اہم کردار کو اجاگر کیا جاسکے جو قائدانہ حکمت عملی کی تشکیل اور ٹیم کے ارکان کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے میں، خوشی اور مثبت خیالی ادا کرتی ہیں۔
LanguageUrdu
Release dateJul 20, 2017
ISBN9781785960536
خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی

Related to خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی

Related ebooks

Reviews for خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی

Rating: 0 out of 5 stars
0 ratings

0 ratings0 reviews

What did you think?

Tap to rate

Review must be at least 10 words

    Book preview

    خوشی اور مثبت خیالی کی عکاسی - Explorer Publishing

    کیوں؟

    1. خوشی کیوں؟

    خوشی پر توجہ کیوں ہے؟‘ ایک ایسا سوال ہے جواکثر پوچھا جاتا ہے، خاص طور پر گزشتہ چند سالوں کے دورِ حکومت میں۔ ملک کے کام کاج میں، میری زبان پر اور حکومت کے ایجنڈے میں، اقدامات اور سرگرمیوں میں کیوں خوشی ایک اہم حصہ بن گئی ہے؟

    یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا سوال ہے جس کا جواب میں اس کتاب میں بار بار دینے کی کوشش کروں گا۔ میں نے خوشی کو مثبت خیالی کے ساتھ جوڑ دیا ہے، ایک ایسی تھیم جسے قاری نوٹ کریں گے کہ میں نے درج ذیل ابواب میں اس پر تفصیل سے وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔

    میں نے خود سےبھی اکثر یہ سوال پوچھا ہے ۔۔ خوشی کیوں؟ حالانکہ یہ ایک سادہ سا خیال معلوم ہوتا ہے لیکن اس میں انتہائی گہرائی موجود ہے اور اس کا جواب دینا بہت ہی مشکل ہے۔

    متحدہ عرب امارات اور دبئی میں ایک رہنما کے طور پر اپنے کردار کو مختصر کرنے کی کوشش میں،میں خود سے یہ بھی پوچھتا ہوں کہ ایک حکمران کے طور پر میرا حقیقی کام کیا ہے؟ میرا بنیادی کام کیا ہے؟ حکومت کو چلانا؟ تو پھر حکومت کا کام کیا ہے؟ قوانین اور پالیسیوں کو نافذ کرنا؟ فوائد کا تحفظ یا حقوق کی پاسداری کرنا؟ یا پھرمعاشرے کو ضروریاتِ زندگی کے سامان فراہم کرنا جیسے تعلیم، رہائش، سڑکیں اور تعمیرو تجدید؟ کیا حکومت کا ایک وسیع تر، گہرا اور زیادہ متاثر کن کام نہیں ہو سکتا؟

    میرا جواب ہے ہاں! جب ہم لوگوں کو خوشی فراہم کرنے کے طالب ہوں تو ہمارا کام زیادہ گہرا، بااثر اور متاثر کن ہو سکتا ہے۔ حکومت کا کردار ایک ایسے ماحول کی تعمیر کرنا ہے جس کے ذریعہ لوگ اپنے خوابوں اور عزائم کو حاصل کر سکیں اور یہ سب خود کے لئے کریں۔ ہمارا کام اس ماحول کی تخلیق کرنا ہے نہ کہ اسے قابو کرنا۔ حکومت کا کام لوگوں کو با اختیار بنانا ہے، ان پر قادر ہونا نہیں۔ حکومت کا کام خوشی حاصل کرنا ہے۔ کیا ہم حکومت میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں پر ان عقائد کے ہونے والے اثرات کا تصور کر سکتے ہیں؟ یہ احساس کہ ان کی ملازمتوں کا عظیم مقصد یہ ہے کہ ان کی ملازمتوں میں ایک مہذب اور گہرا انسان دوستی کا مقصد ہے؛ کہ وہ روزانہ اس سمت کی پیروی کرنے کے لئے اٹھتے ہیں جو ایک انسان کے طور پر ان کے دل کے قریب ہے کہ وہ لوگوں کی خوشی کے لئے اپنا کردار کس طرح ادا کرتے ہیں؟

    کچھ لوگ ایک حکومتی نظام کے تحت کام کرنے کے لئے اپنے سارے کیریئر کو وقف کر دیتے ہیں اور جب وہ عوام کی خدمت کے 30 یا 40 سال کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو انہیں بجا طور پر فخر ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کو خوشی فراہم کرنے کے لئے ایک مسلسل جدوجہد میں گزار دی ہے۔

    لوگوں کی خوشی کا طالب ہونا ہی خوشی کی اصل مثال ہے۔ اسلام میں انسانوں کو خوشی فراہم کرنا عظیم اعمال میں سے ایک ہے اور سب سے زیادہ عظیم لوگ انہی کوسمجھا جاتا ہے جو دوسروں کے لئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہوں۔

    آئیے اس ردعمل کا بھی تصور کرتے ہیں جو لوگوں کا ان جوابات کو سن کر ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ان کے فوائد کے لئے کام کر رہی ہے، ان کے اور ان کے بچوں کے لئے مواقع فراہم کرنے کی خواہاں ہے تاکہ وہ خوشی سے رہ سکیں اور اس کا ارادہ انہیں آلات اور مہارت کے ساتھ با اختیار بنانے کا ہے تاکہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کر سکیں۔ اگر ان تمام اعمال کو انجام دینے کا بنیادی عنصر سچی خوشی کا حصول ہے تو کیا ہم حکومتوں اور ان کے لوگوں کے درمیان کسی بھی قسم کی دشمنی کی موجودگی کا تصور بھی کر سکتے ہیں؟

    نہ تو ہم خیالی دنیا میں رہنے والے ہیں نہ ہی کوئی کامل مخلوق اور خوشی کی قدر پر بحث کرنے والے ہم کوئی پہلےبھی نہیں ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ لوگوں نےہمیشہ خوشی پر غوروفکر اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تقریباً 2400 سال پہلے ارسطو نے کہا تھا کہ حکومت کا مقصد خوشی حاصل کرناہے۔ ان کے بقول حکومت ایک زندہ مخلوق ہے جو افراد کے اخلاقی کمال اور خوشی کے حصول کے لئے تیار اور طالب رہتی ہے۔ 15 ویں صدی کے مشہور تاریخ نویس ابنِ خلدون کی بھی یہی رائے ہے۔ امریکہ کا Declaration of Happiness امریکہ کے ہر فرد کو خوشی کا تعاقب کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی کی پیمائش کے لئے اپنائے گئے اقتصادی معیارات کےبجائے انسانی خوشی کو ایک معیاربنانے کی ترمیم کرنے کے لئے اقوام متحدہ (یو این) کی طرف سے کالز بھی موجود ہیں۔ یہاں تک کہ خوشی کی اہمیت کی تصدیق کے لئے یو این نے ایک عالمی دن مقرر کیا ہے۔

    بہت سے مطالعات نے یہ ثابت کیا ہے کہ خوش رہنے والے لوگ زیادہ تعمیری ہوتے ہیں، لمبی زندگی گزارتے ہیں اور اقتصادی ترقی کے بہتر پیش رو ہوتے ہیں۔ خوشی سے متعلق حکومت کی طرف سے بات کئے جانے پر کچھ لوگوں کی حیرانی کو لے کر میں حیران ہوں۔ خوشی کے اشاریات، پروگرامز اور مطالعات ہوتے ہیں۔ خوشی قابلِ پیمائش ہے؛ اقدار اور اقدامات کی ایک انجمن میں اس کی پرورش اور اسے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل کی خوشی اور افراد، خاندانوں، ملازمین کی خوشی تمام سرکاری شعبوں کے پروگراموں اور اقدامات کا مرکزہونی چاہئے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حکومت کا مقصد خوشی کا حصول ہے تو ہم صرف یہ کہتے نہیں بلکہ مانتے بھی ہیں۔ اور ہم اس پر عملدرآمدبھی کرتے ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کے عزائم اور خواہشات کے ساتھ مطابقت اور ہماری ثقافت کے مطابق اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    جی ہاں، ہم لوگوں کو خوشی فراہم کرنے کے طالب ہیں اور لوگوں کو خوشی فراہم کرنا تب تک ہمارا مقصد اور مشن رہے گا جب تک یہ ایک مستقل اور گہری حقیقت نہیں بن جاتا۔ کوئی بھی حکومت مکمل نہیں ہوتی لیکن لوگوں کو خوشی فراہم کرنے میں ہمارے کردار کو نظر انداز کرنا ایک بہت بڑی غلطی ہوگی۔ یہ کتاب اور کچھ بھی نہیں سوائے اس ہدف کے حصول کی سمت ایک کوشش ہے۔

    "جی ہاں، ہم لوگوں کو خوشی فراہم کرنے کے طالب ہیں۔ اور لوگوں کو خوشی فراہم کرنا تب تک ہمارا مقصد اور مشن رہے گا جب تک یہ ایک مستقل اور گہری حقیقت نہیں بن جاتی۔"

    2. خوشی اور مثبت خیالی: کیا وقت کے ساتھ ہمارا رابطہ ٹوٹ چکا ہے؟

    جب سے ہماری حکومت نے خوشی کے تصور پر اپنی کوششیں مرکوزکرنے کی شروعات کی ہے، وقت بوقت مجھے تبصرے اور آراء موصول ہوتی رہی ہیں۔ ایک قابلِ غور واقعہ وہ ہے جس میں ایک عرب صحافی نے حکومتی اصلاحات کےاس دور پر تبصرہ کیا جس کے نتیجے میں خوشی کے لئے متحدہ عرب امارات کے وزیر کی تقرری ہوئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ وقت کے ساتھ ربط میں نہیں ہے؟

    اس پر میں نے جواب دیا، ہم اس دور میں رہتے ہیں اور ہم اپنے دور کے لئے امید پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری گفتگو جاری رہی اور میں نے اسے بتایا، دنیا میں کسی بھی خطے کو خوشی اور مثبت خیالی کی اتنی ضرورت نہیں جتنی ہمارے خطے کو ہے۔ ہمارے خطے کے اندر اور خطے کے باہر دونوں مقامات پر مایوسی کی ایک زبردست لہر موجود ہے۔

    "مثبت خیالی سوچنے کا ایک طریقہ ہے اور خوشی ایک طرزِ زندگی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کے آپ مالک بن سکیں نا ہی یہ کوئی کام ہے جسے آپ کرسکیں۔ بلکہ یہ تو وہ انداز ہے جس سے آپ چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔"

    یہ منفی خیالی ہمارے تمام میڈیا میں محسوس کی جاتی ہے۔-ہماری خبروں، ہمارے مصنفین کے اداریوں، ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی رائے اور سوشل میڈیا پر بھی۔

    اس رجحان کی کچھ وقت پہلے میری نظر میں آنے والی ایک رپورٹ جس کا مجھ سے تجزیہ کرنے کی درخواست کی گئی تھی، کے ذریعے تصدیق ہوئی۔ یہ 2015 کے لئے عالمی خوشی (World Happiness 2015 Report for) کی رپورٹ تھی جس میں دنیا بھر کے نوجوانوں اور نوعمر افراد کے درمیان مایوسی اور ڈپریشن پر ایک مطالعہ شامل تھا جہاں نوجوانوں کے رویوں کو جغرافیائی طور پر تقسیم کیا گیا تھا۔ آپ کی رائے میں دنیا میں نوجوانوں میں ڈپریشن اور مایوسی کی بلند ترین شرح کس خطے میں ہوگی؟ بے شک یہ عرب دنیا تھی! کسی پر الزام لگائے بغیر میں پوچھتا ہوں کہ جب ہمارے نوجوانوں کو مایوسی نے گھیر رکھا ہو ایسے میں ہم کس طرح کے مستقبل کی امید رکھ سکتے ہیں؟

    اسی وجہ سے میں مثبت سوچ کی پرورش اور خوشی کو پھیلانے کی اہمیت پر پختہ طور ہر یقین رکھتا ہوں۔ اس کتاب میں، میں نے مثبت خیالی کے تصور اور زندگی، کامیابی اور کام پر اس کے اثرات پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی ہے جس میں حکومتی سرگرمیوں پر ہمارے نقطۂ نظر، ہمارے چاروں طرف موجود مواقع، اور ہمـارا آنے والا مستقبل بھی شامل ہے۔

    مثبت خیالی اور خوشی کے درمیان ویسا ہی تعلق ہے جیسا کسی تعارف اور نتیجے کے درمیان ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ اس کام کا ایک اہم موضوع ہے۔ مثبت خیالی سوچنے کا ایک طریقہ ہے اور خوشی ایک طرزِ زندگی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کے آپ مالک بن سکیں یا جسے آپ کرتے ہوں بلکہ یہ وہ انداز ہے جسسے آپ چیزوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ مادی دولت سے ہمیں خوشی نہیں ملتی، نقطۂ نظر سے ملتی ہے۔

    جس صحافی کا میں نے پہلے ذکر کیا تھا اس کے ساتھ گفتگو پر لوٹتے ہوئے، وہ ایک سنسنی خیز اسـٹوری کے ساتھ ہمارے انٹرویو کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے مجھ سے پوچھا، آپ خوشی کے ان پروگراموں پر متحدہ عرب امارات میں کتنا خرچ کرینگے؟

    میں نے جواب دیا، "خوشیاں پروگراموں کی محتاج نہیں ہوتیں جو ہماری حکومت کے روزمرہ کے کاموں سے الگ ہوں۔ خوشی حکومت کے کام کی بنیادی توجہ ہے اور حکومت کے تمام بجٹ کو ہمارے لوگوں کی خوشی کے حصول کے لئے وقف کیا جانا ہی

    Enjoying the preview?
    Page 1 of 1